پاکستان سے ہندوؤں کی مبینہ نقل مکانی؛ بنیادی وجوہات کیا ہیں ؟

31851-1019572513.jpg

کراچی– انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) نے سندھ میں مقیم ہندوؤں کی بڑی تعداد میں نقل مکانی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ صوبے میں امن و امان کی صورتِ حال کو بہتر بنا کر مقامی ہندو آبادی کو تحفظ فراہم کیا جائے۔کمیشن نے یہ بات اپنی تازہ ترین فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کی روشنی میں کہی ہے۔کمیشن کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ کے مختلف علاقوں میں مقیم ہندو کمیونٹی کے رہنماؤں اور ارکان سے انٹرویوز اور کمیشن کی تحقیقات سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ہندو مذہب کے ماننے والے بہت سے لوگ پاکستان چھوڑ کر دیگر ممالک بالخصوص بھارت میں پناہ لے رہے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان چھوڑ کر جانے والے ایسے افراد کی درست تعداد کا اندازہ لگانا بھی مشکل امر ہے کیوں کہ اس قسم کی ہجرت بہت حساس نوعیت کی ہوتی ہے جس کی خبریں میڈیا پر کم ہی رپورٹ ہوتی ہیں یا جان بوجھ کر ایسی معلومات کو چھپایا جاتا ہے۔

ایچ آر سی پی کے نائب چئیرمین قاضی خضر نے بتایا کہ بھارتی حکام یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان چھوڑ کر بھارت میں پناہ کے خواہش مند ہندوؤں کی تعداد 17 ہزار کے لگ بھگ ہے جب کہ بہت سے ہندو یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک بھی منتقل ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ قیامِ پاکستان کے بعد ہندوؤں کی تعداد میں کمی کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ یہاں آباد ہندوؤں کی بڑی تعداد سندھ میں مقیم تھی۔ لیکن کچھ عرصے سے کئی وجوہات کے باعث وہ خود کو محفوظ تصور نہیں کرتے اور انہوں نے سندھ سے نقل مکانی شروع کر دی ہے۔ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مندرجات کے مطابق ہندوؤں کی پاکستان سے بھارت یا دیگر ممالک نقل مکانی نیا رجحان نہیں ہے۔ دسمبر 1992 میں بھارت میں بابری مسجد پر انتہا پسند ہندوؤں کے حملے کے ردِ عمل میں پاکستان میں بھی ہندوؤں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملے ہوئے تھے جس کے بعد تشدد کی فضا میں اضافہ ہوا تھا۔کمیشن کا کہنا ہے کہ2014 میں ایک ہندو رکنِ پارلیمان کے ایوان میں دیے گئے بیان کے مطابق پاکستان میں امن و امان کی خراب صورتِ حال کے باعث سالانہ لگ بھگ پانچ ہزار ہندو بھارت منتقل ہو رہے تھے۔ تاہم اب اس تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ لیکن درست تعداد کا علم نہیں ہے۔

امن و امان کی خراب صورتِ حال سے ہندو آبادی کیسے متاثر ہو رہی ہے؟

کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ہندوؤں کے خلاف پاکستان میں اگرچہ بڑے پیمانے پر تشدد کے واقعات کم ہوئے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود مجموعی امن و امان کی صورتِ حال کے باعث ہندو برادری اپنے خلاف ٹارگٹڈ حملوں اور اغوا برائے تاوان کے مستقل خوف کا شکار ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سندھ کے شمالی اضلاع کندھ کوٹ، جیکب آباد، گھوٹکی، لاڑکانہ اور کشمور میں کئی برس سے امن و امان کی خراب صورتِ حال نے اس معاملے کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ ان علاقوں میں منظم جرائم، مسلح تشدد، خراب طرزِ حکمرانی اور یہاں رچا بسا طاقت کا جاگیردارانہ نظام عمومی بات ہے۔پاکستان میں 2023 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق ملک کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہندو ہے جن کی آبادی 52 لاکھ ہے۔ ہندو کمیونٹی کا دعویٰ ہے کہ یہ تعداد اصل تعداد سے کافی کم ظاہر کی گئی ہے۔ہندوؤں کی سب سے زیادہ تعداد سندھ میں آباد ہے۔ ویسے تو سندھ کے لگ بھگ تمام ہی اضلاع میں ہندو مذہب کے ماننے والے موجود ہیں۔ البتہ با اثر اور متمول ہندوؤں کی اکثریت سندھ کے شمالی اضلاع میں مقیم ہیں۔ہندو پنچایت کے ایک رہنما نےایچ آر سی پی کو بتایا کہ ہندوؤں کو صرف ان کے اعتقاد ہی نہیں بلکہ دولت و کاروباری حیثیت کی وجہ سے بھی اغوا کیا جاتا رہا ہے۔

بھاری تاوان کے بدلے رہائی ملی

گزشتہ سال جنوری میں ضلع گھوٹکی کے شہر میر پور ماتھیلو سے تعلق رکھنے والے ایک ہندو تاجر ریتک کمار کو مبینہ ڈاکوؤں نے اغوا کیا تھا۔ پولیس کے دعوے کے مطابق44 دن کے بعد ریتک کمار کو بازیاب کرا لیا گیا تھا۔تاہم کمیشن کو دیے گئے انٹرویو میں ہندو برادری کے افراد نے بتایا کہ ریتک کمار کو بازیاب کرانے کے لیے ان کے اہلِ خانہ نے بھاری تاوان ادا کیا تھا۔اسی طرح ستمبر 2023 میں ہندو برادری کے دو افراد جن میں ایک نو سالہ بچہ بھی شامل تھا، کو کچے کے ڈاکوؤں نے اغوا کیا تھا اور وہ بھی تاوان ادا کرنے کے بعد رہا ہوکر گھر آسکے تھے۔ اس طرح کے کیسز میں تاوان ادا کرنے کے لیے قبائلی سردار مذاکرات کراتے ہیں اور عمومی طور پر اس تاوان کی قیمت 50 لاکھ سے زائد ہوتی ہے۔

جاگیردارانہ نظام کے باعث تحفظ کے لیے رقم کی ادائیگی

انسانی حقوق کمیشن کا کہنا ہے کہ صوبے کے مختلف اضلاع میں موجود قبائلی جاگیردارانہ نظام ہندو کمیونٹی کی مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بنتا ہے۔ ہندو تاجروں کے مطابق انہیں اپنے تحفظ کی خاطر ایسے بااثر اور طاقت ور قبائلی سرداروں کے زیرِ اثر آنا پڑتا ہے اور انہیں اپنے کاروبار میں بھی شریک کرنا پڑتا ہے۔رپورٹ کے مطابق ہندو تاجروں کا کہنا ہے کہ بعض اوقات وہ اپنے منافع میں حصہ 20 سے30 فی صد حصہ بااثر سرداروں کا رکھتے ہیں۔ کیوں کہ یہ حکمتِ عملی ان کے تحفظ کو یقینی بنانے میں کسی حد تک مددگار ثابت ہو تی ہے۔فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کے مطابق جان و مال کے تحفظ کا خوف اور بے یقینی نہ صرف شمالی سندھ کے اضلاع میں پائی جاتی ہے بلکہ اب سکھر، حیدرآباد اور کراچی جیسے شہروں میں مقیم ہندوؤں کا بھی یہی حال ہوتا جا رہا ہے۔

دہشت گردی کی لہر اور ہندو برادری

انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی سے بھی ہندوؤں کے عدم تحفظ میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ہندو پنچایت کے رہنمانے رپورٹ مرتب کرنے والےایچ آر سی پی کے ارکان کو بتایا کہ پولیس کی جانب سے متواتر یہ ہدایات دی جاتی رہی ہیں کہ جیکب آباد، شکار پور اور دیگر شہروں میں اپنی عبادت گاہوں میں سیکیورٹی کے انتظامات مزید سخت کیے جائیں تاکہ عسکریت پسندگروہوں کے حملوں سے بچاؤ ممکن ہو۔ اس حوالے سے مسلسل مشکلات کے پیش نظر کئی ہندو خاندان کراچی اور حیدرآباد منتقل ہوئے جب کہ بہت سے مستقل طور پر بھارت منتقل ہوگئے ہیں۔

توہین مذہب کے الزامات

ستمبر 2019 میں گھوٹکی میں ایک ہندو اسکول ٹیچر نوتن داس پر توہین مذہب کا الزام عائد کیا گیا۔اس دوران ہونے والے ہنگاموں اور پرتشدد کارروائیں میں ایک مندر اور اسکول کی عمارت کو نقصان پہنچا، مشتعل ہجوم کی جانب سے وہاں توڑ پھوڑ کی گئی اور کئی روز کے لیے شہر بند رہا۔پولیس نے ملزم کو گرفتار کرکے تحقیقات شروع کیں اور نوتن داس کے خلاف مقدمہ قائم ہوا۔ تاہم مارچ2024 میں سندھ ہائی کورٹ نے ملزم کو ثبوت ناکافی ہونے پر بری کر دیا۔اسی طرح کئی دیگر ایسے واقعات میں بھی ہندو کمیونٹی کو توہینِ مذہب کے جھوٹے الزامات کے تحت نشانہ بنایا جانے کے واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں۔گھوٹکی کی ہندو پنچایت کے رہنما کے مطابق ایسے واقعات کے بعد کئی ہندو خاندانوں نے خاموشی سے سندھ چھوڑ کر کہیں اور سکونت اختیار کرنے کو ترجیح دی ہے۔ ان میں پیسے والے افراد ملک سے باہر دیگر ممالک بشمول بھارت منتقل ہوئے۔

زبردستی کی شادیاں تشویش کا باعث

کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ ہندو برادری کے لیے سندھ میں جبری تبدیلیٴ مذہب کے واقعات سخت تشویش کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ یہ واقعات سالوں سے تسلسل سے رونما ہو رہے ہیں جس کا مرکز گھوٹکی کو قرار دیا جاتا ہے۔سندھ میں قانون کے مطابق18 سال سے کم عمر کی شادی غیر قانونی ہے۔ کمیشن حکام کے مطابق ایسی شادیوں کا رواج اب بھی موجود ہے اور کم عمر ہندو لڑکیوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرکے شادی پر مجبور کیا جاتا رہا ہے۔بعض واقعات میں مذہب تبدیل کرنے والی لڑکیوں کو معاشرتی دباؤ کے باعث ان کے والدین واپس لینے سے بھی انکار کر دیتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بعض ہندو رہنماؤں کے خیال میں حالیہ کچھ عرصے میں سول سوسائٹی کے دباؤ کے باعث ایسے واقعات میں کمی ہوئی ہے۔

موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہندو ہجرت

رپورٹ کی تیاری میں حصہ لینے والے ایک رکن امداد کھوسو نے نشاندہی کی ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بھی بڑی تعداد میں ہندو سندھ سے ہجرت کرنےپر مجبور ہوئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں موسمیاتی تبدیلیوں کے شدید اثرات کی وجہ سے آنے والے سیلاب اور شدید گرمی کی لہر نے انہیں یہاں سے منتقل ہونے پر مجبور کیا ہے۔ان کے بقول موسمیاتی تبدیلیوں سے بارش کا تبدیلی ہوتا ہوا پیٹرن، شدید گرمی اور طویل خشک سالی نے سندھ میں زرعی پیداوار پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں اور یہ پیداوار بہت سے خاندانوں جن میں ہندو برادری کے لوگ بھی شامل ہیں، کے لیےگزربسر کا اہم ذریعہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے