رفح کراسنگ کا کنٹرول اسرائیل کے پاس ہی رہے گا

rafacrossing.jpg

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر کی جانب سے بدھ 22 جنوری کو جاری ہونے والے ایک بیان میں ان اطلاعات کی تردید کی گئی ہے کہ فلسطینی اتھارٹی رفح کراسنگ کو کنٹرول کرے گی۔غزہ میں جنگ بندی اب اپنے چوتھے دن میں داخل ہو چکی ہے۔ اس کی بدولت غزہ میں کم از کم چھ ہفتوں تک امن قائم ہونے کی امید ہے جبکہ اسرائیل کی جانب سے قید سینکڑوں فلسطینیوں کی رہائی کے بدلے حماس کے زیر حراست 33 یرغمالیوں کو آزادی نصیب ہو سکے گی۔اسرائیلی حکومت کے مطابق یورپی یونین کے مبصرین رفح کراسنگ کی نگرانی کریں گے۔ اس گزر گاہ پر اسرائیلی فوجیوں نے سخت سکیورٹی قائم کر رکھی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس گزر گاہ سے غزہ پٹی آنے یا جانے والے لوگوں اور سامان کی تمام تر نقل و حرکت پر اسرائیلی کنٹرول برقرار رہے گا۔

اسرائیلی دفاعی افواج نے غزہ پٹی میں فعال جنگجوؤں کے خلاف کارروائی اس وقت شروع کی تھی، جب حماس کی زیر قیادت عسکریت پسندوں نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل میں حملہ کرتے ہوئے تقریباﹰ 1200 افراد کو ہلاک اور تقریباﹰ 250 کو اغوا کر کے غزہ پٹی منتقل کر دیا تھا۔اسرائیل کی جوابی فوجی کارروائیوں کے نتیجے میں غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق 47 ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، مزید یہ کہ ہلاکتوں میں نصف سے زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ ان کارروائیوں میں 17 ہزار سے زائد عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا ہے تاہم اس حوالے سے کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے۔

اقوام متحدہ کے امدادی ادارے یو این آر ڈبلیو اے پر پابندی

غزہ پٹی میں جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے تو امید کی جا رہی ہے فلسطینیوں کے لیے انتہائی ضروری امدادی سامان پہنچنا شروع ہو جائے گا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اتوار سے اب تک تقریباﹰ 1500 ٹرک امدادی سامان لے کر غزہ میں داخل ہو چکے ہیں۔تاہم فلسطینیوں کے لیے امداد کے حوالے سے ریڑھ کی ہڈی تصور کیے جانے والے اقوام متحدہ کے ادارے یو این آر ڈبلیو اے پر اسرائیلی پابندی کی وجہ سے غزہ پٹی میں امدادی کاموں میں تعطل کا خدشہ ہے۔ایک ہفتے میں یو این آر ڈبلیو اے کی غزہ اور دیگر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کام کرنے کی صلاحیت مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔ اس کی وجہ گزشتہ اکتوبر میں اسرائیلی پارلیمان میں منظور کیے گئے دو قوانین ہیں، جن میں سے ایک یو این آر ڈبلیو اے کو ‘دہشت گرد‘ گروپ قرار دیتا ہے جبکہ دوسرا قانون اسرائیل میں اس ادارے پر پابندی عائد کرتا ہے۔

اسرائیل کا دعویٰ ہےکہ یو این آر ڈبلیو اے کے کچھ ملازمین عسکریت پسند گروپ حماس سے وابستہ ہیں۔اسرائیل نے یہ بھی کہا ہے کہ غزہ میں فعال یو این آر ڈبلیو اے کے تقریباﹰ 13،000 ملازمین میں سے کم از کم ایک درجن نے سات اکتوبر کے حملوں میں حماس کا ساتھ دیا تھا۔اگرچہ ان اسرائیلی دعوؤں کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کی گئی تھی تاہم اس کے باوجود یو این آر ڈبلیو اے نے اپنے نو ملازمین کو برطرف کر دیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے