ضلع کُرم میں ’شر پسندوں‘ کے خلاف آپریشن کا آغاز

2599552-securityforce-1706868048-891-640x480.jpg

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں موجود شر پسندوں کے خلاف سکیورٹی اداروں نےآپریشن شروع کردیا ہے۔ آپریشن کرم کے علاقے بگن، مندوری، چھپری اور اوچت کےعلاقوں میں کیا جا رہا ہے۔اطلاعات کے مطابق بگن کے علاقے میں شرپسندوں کےمشتبہ ٹھکانوں کو بھاری اسلحے سے نشانہ بنایا گیا اور ان کے کئی ٹھکانے مسمار کیے گئے۔

بنکرز کی مسماری

صوبائی حکومت کی طرف سے کرم میں قیام امن کے 22 نکاتی ایجنڈا کے مطابق علاقے میں بنائے گئے بنکرز ختم کرنے اور لوگوں کے پاس موجود بھاری اسلحہ جمع کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اب تک دونوں جانب سے دس بنکرز کو ختم کیا گیا ہے۔ تاہم امن معاہدے کی ناکامی اور علاقے میں امن کی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے بنکر مسماری اور علاقے میں ادویات اوراشیائے ضرورت کی فراہمی کے سلسلے میں بھی خلل آیا تھا۔صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف کے مطابق، ”کُرم کا مسئلہ 130 سال پرانا ہے لہٰذا اس تنازعے کو ختم کرانے میں وقت لگے گا۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ دونوں فریقوں نےعلاقے میں قیام امن میں تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔سیف علی کا مزید کہنا تھا کہ شرپسند عناصر کے خلاف بلا تفریق کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔

آپریشن کے آغاز سے قبل ان علاقوں کے باسیوں کو ہنگو اور ٹل نامی علاقوں میں سرکاری عمارتوں میں قائم کیے گئے عارضی کیمپوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ڈپٹی کمشنرہنگو گوہرزمان کے مطابق، ”نقل مکانی کرنے والوں کے لیے وسیع علاقے میں خیمہ بستی بھی قائم کی گئی، ساتھ ہی تمام سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔‘‘ ان کامزید کہنا تھا، ”ضلعی انتظامیہ کو نقل مکانی کرنے والوں کے لیے امدادی سامان کے چار ٹرک مل گئے ہیں جبکہ پراونشل منیجمنٹ اتھارٹی مزید 22 ٹرک سامان فراہم کرے گی۔‘‘

مندوری میں تا حال احتجاج جاری

ادھر مندوری نامی علاقے میں ضلع کرم کے علاقہ بگن کے متاثرین کا احتجاج بدستور جاری ہے۔ متاثرین کے مطابق بگن پر شرپسندوں کی جانب سے حملوں کے دوران ان کے گھروں اوردکانوں کو نذرآتش کیا گیا۔ صوبائی حکومت نے ان کے نقصانات کے ازالے کے لیے 90 فیصد سروے مکمل کر لیا ہے، تاہم اس دوران ایک پھر سے امدادی سامان لے کر جانے والے قافلے پرحملوں کی وجہ سے یہ سلسلہ روک دیا گیا ہے۔ ان حملوں میں مرنے والوں کی تعداداب 10 ہوگئی ہے، پانچ لاپتہ ڈرائیوروں میں سے چار کے قتل کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ ایک تاحال لاپتہ ہے۔مندوری میں ہونے والے احتجاج کی وجہ سے مرکزی شاہراہ بند ہے جس سے امدادی سامان پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری

ادھر کرم کے فریقین کے مابین مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ان مذاکرات کے حوالے سے صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف کے مطابق، ”ریاست پرامن عناصر کے ساتھ کھڑی ہے اور یہ کہ حکومت نے دونوں فریقوں سے درخواست کی ہے کہ امن کے دشمنوں کی نشاندہی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔ حکومت تین ماہ سے پرامن طریقے سے امن بحال کرنے کی کوشیش کررہی ہے، گرینڈ جرگہ کے ذریعے پختون روایات کے عین مطابق امن معاہدہ کیا۔‘‘

خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں آپریشن کی مخالفت

خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں ماضی میں ہونے والے ملٹری آپریشن سے ہونے والی نقصانات کی وجہ سے مختلف اضلاع میں آپریشن کی مخالفت کی جارہی ہے۔ اس سلسلے میں قیام امن کے لیے ریلیاں نکالی گئیں اورمزید آپریشن نہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ان اضلاع میں خیبر، مہمند، باجوڑ، ملاکنڈ ڈویژن، بونیر اور بنوں شامل ہیں۔ ان علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف متعدد آپریشن ہوئے جن کی وجہ سے آج بھی ہزاروں خاندان بے گھر ہیں، جبکہ بے گھر افراد کی ایک بڑی تعداد کو وعدوں کے مطابق آپریشن کے دوران پہنچنے والے نقصانات کا معاوضہ بھی نہیں ملا۔دوسری جانب پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر نے گزشتہ روز پشاور میں سیاسی قائدین سے ملاقات کے دوران انہیں یقین دلایا ہے کہ پختونخوا میں کوئی بھی بڑا آپریشن نہیں کیا جا رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے