غزہ جنگ بندی: کیا یوکرین میں بھی ایسا معاہدہ ہو سکتا ہے؟
جب سبکدوش ہونے والے امریکی صدر جو بائیڈن سے پوچھا گیا کہ کیا غزہ میں فائر بندی کے لیے قطر میں ہونے والے معاہدے کا کریڈٹ ان کو ملنا چاہیے یا ڈونلڈ ٹرمپ کو؟ تو انہوں نے فوراً کہا کہ کیا یہ مذاق ہے؟ یہ مذاق نہیں تھا۔ ٹرمپ کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے ایک ’عظیم‘ معاہدہ کروایا مضحکہ خیز لگ سکتا ہے لیکن ان کا کردار حقیقی تھا۔بائیڈن کی ٹیم نے ٹرمپ کی آنے والی انتظامیہ اور ان کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی سٹیو وٹکوف کے ساتھ مل کر اس معاہدے کو حتمی شکل دی جس پر کئی مہینوں کی محنت کے بعد اتفاق ہوا۔یہ اتفاقی نہیں کہ یہ معاہدہ بائیڈن کے دور حکومت کے آخری دنوں میں طے پایا۔ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی سے ایک ہفتے سے بھی کم وقت قبل۔ اسرائیل کے وزیر اعظم جانتے تھے کہ ٹرمپ کو شامل کرنے سے انہیں نئے صدر کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کا موقع ملے گا۔
حماس کو معلوم ہے کہ ٹرمپ ہمیشہ اس کے مخالف رہیں گے لیکن وہ ایک ایسے دشمن ہیں جو شاید دھمکیوں پر عمل کرتے ہوئے ’آگ برسانے‘ کا خطرہ مول لے لیں گے۔ اگر معاہدہ نہ کیا گیا تو۔بین الاقوامی تعلقات کی دنیا میں ٹرمپ کو اکثر غصیلے بچے کے طور پر ظاہر کیا جاتا ہے۔ لیکن 45 ویں صدر کے طور پر ان کا ریکارڈ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کا ’طاقت کے ذریعے امن‘ اور ’سب سے پہلے امریکہ‘ کا نظریہ، ساتھ میں غیر متوقع رویے کی شہرت، بائیڈن کے چھوڑے گئے بحران سے بہتر رہا۔بائیڈن کی مدت صدارت یوکرین کو اتنی فوجی مدد فراہم کرنے میں ناکامی سے جانی جاتی ہے کہ وہ روسی افواج کو مکمل طور پر نکال سکے، لیکن اتنی ضرور کہ جنگ جاری رہے۔
اگر بائیڈن نے کبھی چاہا بھی کہ اسرائیل کو امریکی ہتھیار استعمال کرتے ہوئے غزہ پر شدید بمباری سے روکیں، تو وہ یہ مقصد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اس بمباری کے نتیجے میں اسرائیل پر جنگی جرائم کے الزامات لگے جو شاید امریکہ کے لیے بھی مشکلات پیدا کریں۔ بائیڈن کے دور میں ایران نے مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام پیدا کرنے والی اپنی سرگرمیاں مزید بڑھائیں۔ یہاں تک کہ اسرائیل نے اس پر حملوں اور لبنان میں حزب اللہ کو کمزور کرکے اسے روک دیا۔افغانستان میں مغربی ملکوں کی 20 سال کی جنگ، خونریزی اور وسائل کی بربادی کا افسوسناک اختتام بھی بائیڈن کے دور میں ہوا۔
ٹرمپ، غزہ فائر بندی میں اپنے کردار کی بدولت خوداعتمادی سے بھرے ہوئے وائٹ ہاؤس میں واپس آ رہے ہیں۔ ان کے حامی اور مخالفین اب ان کی خود پسندی اور تکبر کو اپنے فائدے کے لیے مزید استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ کیا اب ٹرمپ، نوبیل امن انعام پر نظریں جمائیں گے؟روس کے نقطہ نظر سے یہ ایک ایسی خواہش ہے جس کی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ ٹرمپ بارہا دعویٰ کر چکے ہیں کہ وہ یوکرین کی جنگ ختم کروا سکتے ہیں۔ وہ ماسکو اور کیئف کے درمیان مذاکرات کی قیادت کرنا چاہتے ہیں۔اگر روس اس سوچ کو قائم رکھ پایا تو شاید ٹرمپ یوکرین کی فوجی امداد کو کم کر دیں اور یوکرین کے صدر وولودی میر زیلنسکی کو مشرقی علاقوں پر سمجھوتہ کرنے پر مجبور کریں جو پہلے ہی روسی افواج کے قبضے میں ہیں۔ ایسا معاہدہ نہ تو ٹرمپ کے لیے نوبیل انعام لائے گا اور نہ یورپ میں امن لیکن تب تک پوتن وہ سب کچھ حاصل کر چکے ہوں گے جس کی وہ حقیقت پسندانہ امید کر سکتے ہیں۔
پھر بھی حالیہ دنوں میں ٹرمپ نے اشارے دیے ہیں کہ وہ یوکرین کے حوالے سے سیدھا سادہ نظریہ اپنانے کے خواہاں نہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ جنگ کو 24 گھنٹے میں ختم کرنے کے بجائے اسے میں چھ ماہ لگ سکتے ہیں۔ اور وہ خود کو اس شخص کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیں گے جس نے کیئف کو اسی طرح کھو دیا جیسا کہ بائیڈن پر کابل کھونے کا الزام ہے۔
ٹرمپ اکثر نیٹو کے خلاف نظر آتے ہیں اور اس اتحاد سے نکلنے کی دھمکی دے چکے ہیں جو دوسری عالمی جنگ کے بعد سے مغربی سلامتی کا ضامن رہا ہے۔ لیکن انہوں نے اپنا رویہ نرم کرتے ہوئے نیٹو ارکان سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنے دفاعی اخراجات کو جی ڈی پی کے پانچ فیصد تک بڑھائیں (جبکہ زیادہ تر ممالک نیٹو کی متفقہ دو فیصد کی حد سے بھی نیچے ہیں)۔ پولینڈ پہلے ہی 4.7 فیصد کے قریب پہنچ چکا ہے اور یورپ کے کئی ممالک اپنی رفتار تیز کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔یورپی ممالک ٹرمپ کے ساتھ احتیاط سے معاملات طے کریں گے۔ زیادہ تر ان کے مطالبات مان کر اپنی حفاظت کا انتظام خود کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس خوف سے کہ کہیں وہ پوتن کو جزوی فتح کا موقع نہ دے دیں۔ امریکی نقطہ نظر سے یہ حکمتِ عملی اچھی ہے۔ روس امریکہ کے لیے بڑا خطرہ نہیں بلکہ یورپ کے لیے ایک خطرہ ہے، لہٰذا یورپ کا اپنی حفاظت کے لیے اخراجات بڑھانا منطقی اور اقتصادی دونوں لحاظ سے مناسب ہے۔
فرانس اور اب برطانیہ اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ آیا یوکرین کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے فوج بھیجی جائے (اگر کیئف روس کے ساتھ جنگ بندی پر راضی ہو جائے)۔ روس اس اقدام کو کسی صورت قبول نہیں کرے گا کیوں کہ یہ نیٹو ممالک کو اس کی دہلیز تک لے آئے گا۔ٹرمپ کے رجحانات زیادہ تر مقامی نوعیت کے ہیں۔ وہ امیگریشن کے مسائل اور وسطی امریکہ پر مرکوز ہیں۔ میکسیکو، وینزویلا، اور ایل سلواڈور انتشار کا شکار ہیں جہاں منشیات کے دھندے سے حاصل ہونے والی دولت اور بدامنی کا غلبہ ہے۔ وہ مشرق وسطیٰ اور دیگر خطوں میں حالیہ امریکی مہمات جاری رکھنے کی بجائے وسطی اور جنوبی امریکہ پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ٹرمپ کے گرین لینڈ، کینیڈا، اور پاناما نہر کے حوالے سے عزائم عجیب اور بین الاقوامی قانون کی بنیادوں کے لیے خطرہ ہیں جس پر دنیا انحصار کرتی ہے۔ لیکن یہ اس بات کا بھی اشارہ ہیں کہ ان کی توجہ اپنے قریب کے مسائل پر ہے۔
ان کا بڑا مسئلہ چین ہے جو عالمی طاقت بننے کے لیے حقیقی حریف ہے۔ چین فوجی توسیع اور بے مثال اقتصادی سفارت کاری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اس کے اقتصادی اور فوجی تعلقات کے نیٹ ورک ترقی پذیر دنیا میں کولکتہ سے کیپ ٹاؤن اور کراکس تک پھیلے ہوئے ہیں۔ چین کے کیوبا میں خفیہ معلومات اکٹھی کرنے کے اڈے ہیں اور اس نے امریکہ میں منشیات کی بھرمار کر دی ہے جس سے ہزاروں افراد کی جان جا چکی ہے۔
ٹرمپ نے چین کو امریکی درآمدات پر ٹیرف کی وجہ سے تجارتی جنگ کی دھمکی دی جب کہ تائیوان کو چین کے حقیقی فوجی خطرے کا سامنا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر چین نے جزیرے پر حملہ کیا تو کیا وہ اس کا دفاع کریں گے؟ تو ان کا صرف یہی کہنا تھا کہ ’میں چاہوں گا کہ وہ ایسا نہ کرے۔
ٹرمپ کو معاملات نمٹانے والا سمجھا جاتا ہے اس لیے وہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو دوبارہ معمول پر لانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ انہوں نے ابراہام معاہدوں کو آگے بڑھایا جو اسرائیل اور متحدہ عرب امارات، مراکش، بحرین اور سوڈان کے درمیان تعلقات کو ’معمول‘ پر لائے۔لیکن سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملوں کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ فلسطین کاز کو تعلقات ’معمول پر لانے‘ اور ابراہام معاہدوں کے دوران نظر انداز کیا گیا۔اچھی امید رکھنے والے اب یہ یقین کر سکتے ہیں کہ غزہ فائر بندی مذاکرات کے بعد ٹرمپ کو سفارتی کامیابیوں کا دوبارہ شوق پیدا ہو گیا ہے۔ ان کا نتن یاہو پر اثر و رسوخ ہے، سعودی عرب کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اور وہ فلسطینی عوام کے لیے مسئلہ فلسطین کے منصفانہ حل اور اسرائیل کی سلامتی کی ضروریات کو بہتر طور پر سمجھتے ہیں۔ نیا امریکی صدر شاید امن عمل کو دوبارہ شروع کرنے کی کوششوں کی قیادت کرنے کی طرف مائل ہو جائے۔
یہ کام واقعی ’عظیم‘ ہوگا، لیکن طویل، بہت خشک اور ناگزیر طور پر ناکامی کا شکار۔ ٹرمپ کبھی ناکام نظر آنا پسند نہیں کریں گے۔ غزہ سے ملنے والا سبق یہ ہے کہ ٹرمپ کامیابی اور اس کے ساتھ ہونے والی تعریفوں کو پسند کرتے ہیں۔ ’ہارے ہوئے شخص‘ کی طرح نظر آنا ایک ایسی چیز ہے جس کا خطرہ وہ شاید پوتن کے معاملے میں بھی مول نہیں لیں گے جو یوکرین کے لیے اچھی خبر ہو سکتی ہے۔