تل ابیب کی نئی سیاسی شکست

4.jpg

 

 

آج غزہ جنگ 471 دن کے بعد باقاعدہ طور پر اختتام پذیر ہو چکی ہے جبکہ غزہ کی شجاع عوام نے 15 ماہ سے زیادہ استقامت اور مزاحمت کا مظاہرہ کرنے کے بعد اپنے تباہ شدہ گھروں کی جانب واپسی کا آغاز کر دیا ہے۔ غزہ جنگ میں غاصب صیہونی رژیم کی شکست روز روشن کی طرح واضح ہے لیکن اب بھی جو افراد شک و تردید کا شکار ہیں ان کے لیے درج ذیل پانچ دلائل پیش کیے جاتے ہیں:

1)۔ عبری حلقوں اور ذرائع ابلاغ نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ جنگ بندی کے بعد غزہ کے حالات کے بارے میں جو خبریں موصول ہو رہی ہیں وہ بہت ہی عجیب ہیں اور فلسطینی شہری اپنا قومی پرچم اٹھائے تباہ شدہ گھروں کے ملبے پر فتح کے جشن منا رہے ہیں۔ صیہونی ذرائع ابلاغ کے بقول غزہ سے جو تصاویر موصول ہو رہی ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ تباہ کن جنگ کے باوجود فلسطینیوں کے حوصلے پہلے کی طرح بلند ہیں۔

 

2)۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اپنی متعدد تقریروں میں غزہ جنگ کے اہداف بیان کیے تھے جن کی روشنی میں اب جنگ بندی کے بعد اسرائیل کی شکست ایک واضح حقیقت ہے۔ نیتن یاہو نے حماس کو ختم کرنے، اسرائیلی یرغمالیوں کو آزاد کرنے اور غزہ پر مکمل قبضہ کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن آج جنگ بندی ایسے حالات میں انجام پائی ہے جب حماس پوری طاقت سے غزہ میں موجود ہے، اسرائیلی یرغمالی بھی فوجی طاقت کے ذریعے آزاد نہیں ہو سکے اور غزہ پر اسرائیلی قبضہ بھی ختم ہونے جا رہا ہے۔ نیتن یاہو کے بیان کردہ اہداف میں سے حتی ایک بھی حاصل نہیں ہوا جبکہ فلسطینی معاشرہ پوری طرح متحد ہے۔

3)۔ غزہ جنگ کے دوران غاصب صیہونی رژیم پر عالمی حلقوں کی جانب سے وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور جنگی جرائم کے ارتکاب پر شدید تنقید سامنے آئی ہے۔ لہذا اس وقت عالمی سطح پر اسرائیل کا چہرہ بری طرح متاثر ہوا ہے اور عالمی رائے عامہ میں صیہونی حکمرانوں کے خلاف شدید نفرت اور غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

 

4)۔ بین الاقوامی فوجداری عدالت نے صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور سابق وزیر جنگ یوآو گالانت کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہوئے ہیں جو ان پر جنگی جرائم اور فلسطینیوں کی نسل کشی ثابت ہونے کے بعد جاری ہوئے ہیں۔ یہ تل ابیب کی سیاست خاص طور پر نیتن یاہو اور اس کے اتحادیوں پر کاری ضرب ہے۔

5)۔ غزہ جنگ کے نتیجے میں اس وقت صیہونی معاشرہ شدید ترین اختلافات اور انتشار کا شکار ہو چکا ہے۔ صیہونی معاشرے کا بڑا حصہ غزہ جنگ جاری رکھنے پر حکومت کا شدید مخالف تھا جبکہ نیتن یاہو کی کابینہ میں شامل چند انتہاپسند وزیر جنگ بندی کی شدید مخالفت کر رہے تھے۔ ان اختلافات کے باعث صیہونی معاشرے میں گہری خلیج پیدا ہو چکی تھی۔ اب جبکہ جنگ بندی کا آغاز ہو چکا ہے تو صیہونی حکومت نئے بحران کا شکار ہو چکی ہے اور انتہاپسند وزیر مستعفی ہونے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ حال ہی میں قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر اور اس کی قوم پرست پارٹی "اوٹسما یہودیت” کے چند دیگر وزراء نے نیتن یاہا کی کابینہ سے استعفی دے دیا ہے جس کے باعث موجودہ صیہونی حکومت شدید تزلزل اور بحران کا شکار ہو گئی ہے۔ ان وزراء کے مستعفی ہو جانے کے بعد صیہونی رژیم میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہو گیا ہے اور اسرائیل کے سیاسی ڈھانچے کی کمزوری عیاں ہو گئی ہے۔

 

غاصب صیہونی رژیم میں ہمیشہ سے انتہائی متزلزل اور کمزور اتحاد برسراقتدار آتے رہے ہیں۔ اس وقت بن گویر اور اس کی پارٹی کے دیگر وزراء کے استعفوں نے نیتن یاہو حکومت کو سرنگونی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ قوم پرست انتہاپسند جماعت اوٹسما یہودیت گذشتہ الیکشن میں فلسطینیوں کے خلاف شدت پسندانہ نعروں کے ذریعے ووٹ لینے میں کامیاب ہوئی تھی۔ لیکن اب جنگ بندی قبول کر لینے کے بعد اسے اپنے ہی ووٹ بینک کی جانب سے شدید دباو کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس وقت یہ پارٹی مفادات میں تضاد اور گہرے اندرونی اختلافات کے باعث خود بحران کا باعث بن چکی ہے۔ اس پارٹی کے وزراء کی جانب سے استعفوں نے ثابت کر دیا ہے کہ حتی صیہونی شدت پسند گروہ اور جماعتیں بھی اسلامی مزاحمت کے مقابلے میں غاصب صیہونی رژیم کی شکست روک نہیں سکتے۔ ان گروہوں کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف مستبدانہ پالیسیوں کا واحد نتیجہ سیاسی میدان میں صیہونی رژیم کی گوشہ گیری اور بند گلی میں داخل ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

 

نیتن یاہو کابینہ میں ایسے وقت انتشار کی لہر آئی ہے جب فلسطین میں اسلامی مزاحمتی گروہ طاقت کے عروج پر ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی رژیم تیزی سے زوال پذیر ہو رہی ہے۔ غاصب صیہونی رژیم، جو ماضی میں خود کو ایک علاقائی طاقت کے طور پر ظاہر کرنے کی کوشش کرتی آئی ہے، اس وقت شدید اندرونی بحرانوں، عالمی سطح پر مشروعیت کے بحران اور فلسطینی عوام کی مزاحمت کے مقابلے میں شکست سے روبرو ہے۔ انہی ناکامیوں نے آخرکار صیہونی رژیم کو حماس سے جنگ بندی معاہدہ قبول کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ وہی حماس ہے کہ طوفان الاقصی آپریشن کے بعد غاصب صیہونی رژیم نے اس کی نابودی پر کمر باندھ رکھی تھی اور حماس کی نابودی کو جنگ کا اہم ترین مقصد بیان کرتی تھی۔ اتمار بن گویر اور اس کی انتہاپسند جماعت کے دیگر وزیروں کے استعفے صیہونی رژیم کے سیاسی بحران کو مزید شدید اور گہرا کر دیں گے۔ اس وقت اسرائیل ایک اندرونی جنگ کا شکار ہو چکا ہے اور جس طرح رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے فرمایا ہے غاصب صیہونی رژیم کی نابودی ایک کمزور احتمال نہیں بلکہ ایسی حقیقت ہے جو عنقریب ظاہر ہو جائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے