تین ارب افراد پر استعمال کی پابندی، ٹک ٹاک سب سے متنازع ایپ کیسے بنی؟
صرف سات سال سے کم عرصے میں امریکہ میں 17 کروڑ سے زائد صارفین حاصل کرنے کے بعد ٹک ٹاک اب مکمل پابندی کے خطرے سے دوچار ہے۔19 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے سے ایک دن قبل امریکہ چینی ملکیت والی اس ایپ پر مکمل پابندی عائد کرنے والا تازہ ترین ملک بننے کے لیے تیار ہے۔ٹک ٹاک کی مرکزی کمپنی بائٹ ڈانس اس فیصلے کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے اور پابندی سے بچنے کے تین ممکنہ راستے ہیں۔
پہلا یہ کہ امریکی سپریم کورٹ اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دے۔ دوسرا، ٹرمپ کو اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے بعد یہ فیصلہ تبدیل کرنے پر آمادہ کیا جائے اور تیسرا، جو انتہائی غیر یقینی نظر آتا ہے، بائٹ ڈانس اس فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے ٹک ٹاک کو کسی امریکی کمپنی کو فروخت کر دے۔اگر ان میں سے کوئی بھی ممکن نہ ہوا اور پابندی نافذ ہو گئی تو امریکہ ٹک ٹاک کو بند کرنے والی پہلی بڑی مارکیٹ نہیں ہو گی۔2020 میں انڈیا نے ایپ پر مکمل پابندی لگا دی تھی، جس سے تقریباً 20 کروڑ صارفین محروم ہو گئے تھے۔
انڈین حکومت نے ایپ کے بارے میں رازداری کے مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بائٹ ڈانس کے چینی حکومت سے مبینہ تعلقات انڈیا کی خود مختاری اور سلامتی کے لیے خطرہ پیدا کرتے ہیں۔دیگر ممالک اور خطوں نے، بشمول یورپی یونین، جزوی پابندیاں عائد کی ہیں، جن کے تحت سرکاری ملازمین اور فوجی اہلکاروں کو ایپ انسٹال کرنے سے روکا گیا ہے۔امریکہ میں پہلے ہی مختلف وفاقی اور ریاستی سطح کی پابندیاں موجود ہیں، جن میں قانون سازوں نے قومی سلامتی کے خدشات کا حوالہ دیا ہے۔ان خدشات کے باوجود ٹک ٹاک کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔ پچھلے سال یہ ایپ امریکہ اور دنیا بھر میں سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ کی جانے والی ایپس میں شامل رہی، جس کے امریکہ میں پانچ کروڑ 20 لاکھ اور دنیا بھر میں 73 کروڑ 30 لاکھ ڈاؤن لوڈز ہوئیں، حالانکہ دنیا بھر میں تین ارب سے زائد افراد اس ایپ کو ڈاؤن لوڈ کرنے سے محروم ہیں۔
اس کی وجہ سے ٹک ٹاک کے عالمی صارفین کی تعداد دو ارب سے تجاوز کر گئی ہے، اور صرف انڈیا کی پابندی نے، جو تین سال قبل لگائی گئی تھی، اس کی ترقی کو عارضی طور پر تھوڑا سست کیا۔پیو ریسرچ سینٹر کے ایک سروے کے مطابق ٹک ٹاک 2023 میں امریکہ میں سب سے تیزی سے بڑھنے والا پلیٹ فارم بن گیا کیونکہ نوجوان نسل سمیت دیگر عمر کے افراد بھی یہ ایپ استعمال کرنے لگے ہیں۔امریکہ میں ٹک ٹاک صارفین، خاص طور پر 18 سے 29 سال کی عمر کے ایک تہائی افراد، اسے خبروں کے ذرائع کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔2023 میں 18 سے 29 سال کی عمر کے تقریباً ایک تہائی افراد باقاعدگی سے خبروں کے لیے اس ایپ کا استعمال کرتے رہے۔ایف بی آئی کا دعویٰ ہے کہ بائٹ ڈانس کے چینی حکومت سے تعلقات ایپ کو مواد میں ’ہیرا پھیری‘ کرنے کے قابل بنا سکتے ہیں تاکہ نقصان دے پروپیگنڈا پھیلایا جا سکے۔
قومی سلامتی کے خدشات کو سنسرشپ کے سوالات کے ساتھ چیلنج کیا گیا ہے، جسے الیکٹرانک فرنٹیئر فاؤنڈیشن نے ’حقیقی سیکورٹی خدشے کے بیج کو سنسرشپ کی موٹی تہہ میں لپیٹا ہوا‘ قرار دیا۔امریکی ڈیجیٹل آزادی کے گروپ نے عوام پر زور دیا ہے کہ وہ ’ایک مقبول ذریعہ اظہار اور مواصلات پر حکومتی اختیار کے خلاف مزاحمت کریں۔ٹک ٹاک نے پیر کو سپریم کورٹ میں اپنی درخواست میں یہ مؤقف اختیار کیا کہ ایپ پر پابندی لگانا ایسے وقت میں ’بند‘ کرنے کے مترادف ہوگا جب سیاسی ماحول اپنے عروج پر ہے۔ٹک ٹاک نے لکھا: ’اس اقدام کی وجہ سے صدارتی حلف برداری سے ایک دن قبل امریکہ میں عوامی اظہار کا سب کے زیادہ مقبول پلیٹ فارمز میں سے ایک بند ہو جائے گا۔
اس کے نتیجے میں وہ تمام امریکی شہری جو اس پلیٹ فارم پر سیاست، تجارت، فنون یا دیگر عوامی اہمیت کے معاملات پر بات چیت کرتے ہیں، خاموش ہو جائیں گے۔بدھ کو سپریم کورٹ کی جانب سے اس معاملے کو سننے کے فیصلے کے بعد ٹک ٹاک کے ترجمان نے کہا: ’ہمیں یقین ہے کہ عدالت ٹک ٹاک کی پابندی کو غیر آئینی قرار دے گی تاکہ ہمارے پلیٹ فارم پر موجود 17 کروڑ سے زیادہ امریکی اپنے اظہار رائے کی آزادی کے حقوق کا استعمال جاری رکھ سکیں۔‘