اجمیر درگاہ پر ہندو مندر ہونے کا تنازعہ ” مقدمہ اور حقائق”
گذشتہ ہفتے ہی انڈیا کی ریاست راجستھان میں درگاہ اجمیر پر خواجہ معین الدین چشتی کا 813 واں سالانہ عرس اختتام پذیر ہوا ہے جس میں نہ صرف ملک بھر سے بلکہ بیرون ملک سے لاکھوں زائرین شریک تھے اور اس دوران پورا علاقہ روحانیت اور تصوف کے رنگ میں ڈوبا ہوا تھا۔گذشتہ آٹھ سو برس سے خواجہ معین الدین چشتی کے آستانے پر لاکھوں لوگ بلا تفریق مذہب و ملت آتے رہے ہیں۔ لیکن رواداری محبت اور مشترکہ تہذیب کا یہ مرکز اب ایک مذہبی تنازع کی زد میں ہے۔انڈیا میں کئی تاریخی مساجد کے بعد اب اجمیر کی درگاہ پر بھی ہندو مندر ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اور اس سلسلے میں دائیں بازو کی ایک سخت گیر ہندو تنظیم ‘ہندو سینا’ کے صدر وشنو گپتا نے خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ کے خلاف دائر مقدمے میں یہ دعوی کیا ہے کہ یہ درگاہ بھگوان شیو کے مندر کو توڑ کر اس کی جگہ پر بنائی گئی تھی۔
انھوں نے اجمیر کی ذیلی عدالت سے درخواست کی ہے اسے ‘سنکٹ موچن مہادیو مندر’ قرار دیا جائے۔ اس سے پہلے بھی ملک کی کئی مساجد کے خلاف مقدمے دائر کیے گئے ہیں لیکن رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کی مثال سمجھے جانے والی خواجہ کی درگاہ کے خلاف مقدمے نے اس رحجان کو اور بھی الجھا دیا ہے۔ہندو سینا کے صدر وشنو گپتا نے اجمیر کی عدالت میں جو مقدمہ دائر کیا ہے اس میں عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ مندر ہونے کے ان کے دعوے کا ثبوت حاصل کرنے کے لیے درگاہ کا سروے کرائے۔سپریم کورٹ کی مداخلت سے فی الحال ذیلی عدالت میں کسی طرح کی سماعت یا کسی طرح کا حکم جاری کرنے پر امتناع ہے۔ یہ تنازع کیا رُخ اختیار کرتا ہے اس کا انحصار عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر ہو گا۔
درخواست گزار وشنو گپتا کا مسلمان مخالف موقف
درخواست گزار وشنو گپتا نےمیڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں آئین نے حق دیا ہے۔ عدالت نے ہمارا مقدمہ اس لیے قبول کیا ہے کیونکہ آئین میں اس کی جگہ ہے۔ اس لیے سب کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔ ہم کوئی زبردستی اسے خالی کروانے نہیں جا رہے ہیں۔کورٹ اگر حکم دے گا تو خالی بھی کروائیں گے۔ رہی بات مل جل کر رہنے کی اور یہ کہ مقدمہ کرنے سے ہم آہنگی پر اثر پڑ رہا ہے تو کیا ہم آہنگی کے بارے میں سوچنے کا کام صرف ہندوؤں کا ہے؟’وشنو گپتا انڈیا کے مسلمانوں کے متعلق سخت موقف اپناتے ہوئے کہتے ہیں کہ مسلمان تقسیم کے وقت اپنا حق لے چکے ہیں اب ان کا حق ختم ہو چکا ہے۔ ‘مسلمانوں نے پاکستان چنا، ان کی آبادی کے تناسب سے انھیں زیادہ زمینیں دی گئیں۔ بٹوارہ دھرم کے نام پر ہوا تھا۔ایک بار حق لینے کے بعد پھر حق مانگ رہے ہو۔ قانون نے ہمیں آپشن دیا ہے اس لیے واپس لینے کی بات کی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کو یہ ماننا پڑے گا کہ وہ یہاں ایک مہمان کے روپ میں ہیں۔ یہاں آپ کا کوئی وجود نہیں ہے۔‘
منتظم درگاہ اجمیر شریف کا موقف
درگاہ اجمیر کے منتظم سید سرور چشتی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس بارے میں کہا کہ یہ مزار تو مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کی علامت ہے۔ اس کے بارے میں کسی طرح کا تنازع پیدا کرنا تکلیف کا باعث ہے۔خواجہ کی درگاہ ملک کی متنوع تہذیب اور ثقافت کی علامت ہے۔ یہ رنگ و نسل سے بالاتر کلچر کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ متنوع ماحول کے اتحاد کے تصور کی عکاسی ہے۔ یہاں ہر مذہب و ملت اور ہر شعبہ زندگی کے لوگ آتے ہیں۔ یہاں انسانیت کی وحدت کا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جب انڈیا کے اقلیتی امور کے وفاقی وزیر، وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے چادر لے کر آئے تھے تو اس وقت میں نے ان سے یہی کہا کہ حکومت تمام مذہبی مقامات کے تحفظ کی ضمانت دینے والے 1991 کے قانون کو مکمل طور پر نافذ کرے۔
اجمیر کے رہائشی اور حقوق انسانی کی تنظیم پیپلز یونین فار سول لبرٹیز سے وابستہ ڈاکٹر اننت بھٹناگر کہتے ہیں کہ یہ درگاہ تقریـباً 800 سال سے موجود ہے۔ برے سے برے حالات میں بھی اس کے بارے میں کبھی کوئی تنازعہ نہیں پیدا ہوا۔ان کے خیال میں ہو سکتا ہے کہ اس کے خلاف مقدمہ سستی شہرت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہو لیکن ملک کے جس طرح کے حالات ہیں ان کے پیش نظر اب ڈر لگنے لگا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ یہاں کے لوگوں کے ذہن میں تو ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ جب پورے ملک میں مذہبی نفرت اور سیاست کا گٹھ جوڑ چل رہا ہے تو سیاست اس سوال کو سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے کب اس کی سمت بدل دے یہ خطرہ ہر وقت موجود ہے۔اگر سیاست چاہے تو یہ آگ بڑھ سکتی ہے۔
درگاہ اجمیر شریف کی تاریخ کیا ہے؟
خواجہ غریب نواز ایران کے صوبے سیستان میں پیدا ہوئے تھے اور سفر کرتے کرتے اجمیر پہنچے اور یہیں پہاڑوں کے دامن میں اپنا مسکن بنایا اور یہیں پر وفات پائی-مورخ مہرو جعفر اپنی کتاب ‘دی بک آف معین الدین چشتی’ میں لکھتی ہیں کہ وہ 14 برس کی عمر میں یتیم ہو گئے تھے۔ ان کی ایک اتفاقیہ ملاقات ایک صوفی ابراہیم قندوزی سے ہوئی جنھوں نے انھیں حق کی جستجو اور روحانیت کی طرف مائل کیا۔20 برس کی عمر تک وہ دور دراز کے شہروں اور ملکوں کا سفر کر چکے تھے۔ انھوں نے منطق، قواعد، فلسفہ، اخلاقیات اور مذہب کی تعلیم بخارا اور سمرقند کے مدارس میں حاصل کی۔
افغانستان کے صوبے ہرات میں ان کی ملاقات چشتی سلسلے کے صوفی خواجہ عثمان ہارونی سے ہوئی جو ان کے روحانی استاد بنے۔ معین الدین نے قطب الدین بختیار کاکی کو اپنا پہلا شاگرد بنایا اور انھیں کے ساتھ ملتان کا سفر کیا۔ملتان میں انھوں نے سنسکرت زبان کا مطالعہ کیا اور ہندو عالموں سے مذاکرات کیے۔ وہاں سے وہ لاہور اور دلی گئے۔ وہ 1191 میں اجمیر پہنچے۔مورخ مہرو جعفر کے مطابق یہاں ان کی ملاقات اپنی اہلیہ بی بی امت اللہ سے ہوئی اور انھوں نے اجمیر میں قیام کرنے کا فیصلہ کیا۔
بی بی اور معین الدین کا چھوٹا سا مٹی کا مکان بہت جلد بے گھر اور بھوکے لوگوں اور سکون تلاش کرنے والوں کی پناہ گاہ بن گیا۔ ان کی سخاوت اور بے لوث خدمت کے جذبے کے سبب انھیں لوگوں نے غریب نواز کا خطاب دیا۔اس صوفی فقیر کے آستانے کے در و دیوار مملوکی سلطانوں سے لے کر مغلیہ بادشاہوں تک نے تعمیر کروائے۔ اور کتنے بادشاہوں نے اس فقیر کے آستانے پر آکر انھیں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔مورخ رعنا صفوی نے ‘ان سرچ آف دی ڈیوائن: لیونگ ہسٹریز آف صوفیزم ان انڈیا’ میں لکھا ہے کہ مسلم حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ہندو راجاؤں نے بھی اجمیر کی درگاہ میں تعمیرات کرائی تھیں۔وہ لکھتی ہیں کہ ایک مراٹھا سردار کمار راؤ سندھیا نے اجمیر ميں رہائشی کمرے تعمیر کرائے تھے۔ انھیں یقین تھا کہ خواجہ کی دعا سے ان کے یہاں بیٹا ہوا۔ اسی طرح 18 ہویں صدی میں مہارانی بیزا بائی نے 1709 میں جودھپور کے راجہ اجیت سنگھ نے اور 1800 میں بڑودہ کے مہاراجہ نے درگاہ میں تعمیرات کرائی تھیں۔
انڈیا کی متنوع ثقافت میں درگاہ اجمیر کا کردار
یہ مزار صدیوں سے انڈیا میں مذہبی ہم آہنگی اور رواداری کی ایک مثال رہی ہے۔ یہاں آنے والے عقیدت مندوں میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ایک بڑی تعداد ہندو زائرین کی بھی تھی۔ اس آستانے پر مرد و عورت، مذہب اور ذات پات کا کوئی فرق نہیں۔خواجہ معین الدین چشتی کے عرس پر آنے والے زائرین میں ایک نوعمر لڑکی شالو پرجاپتی بھی اپنے ہاتھوں میں گلابوں کا گلدستہ لیے ہوئے اپنی مرادیں لیے خواجہ کے مزار کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘ہندو اور مسلم میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ سب کا رب ایک ہے۔ بس دل سے مانگیں گے تو رب دیتا ہے۔کرناٹک میں چشتیہ سلسلے خواجہ بندہ نواز درگاہ کے صوفی اور سجادہ نشین سید محمد علی الحسینی کا خیال ہے کہ ایسے تنازعوں کو درگزر کر دینا چاہیے۔یہ چھوٹی موٹی چیزیں ہر زمانے میں آتی ہیں، ہر زمانے میں آئیں گی اور پھر چلی بھی جائیں گی۔ ہمیں ان پر اپنی توجہ نہ دے کر اپنی توانائی قومی یکجہتی اور اپنی ترقی پر مرکوز کرنی چاہیے۔’
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی مورخ ڈاکٹر لبنی عرفان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا ثقافتی اعتبار سے بہت مالا مال ملک ہے اور یہ درگاہیں انڈیا کی گنگا جمنا تہذیب کی جیتی جاگتی علامت ہیں۔ انھیں نقصان پہنچانا بہت مشکل ہے۔آپ کہیں پر بھی کھدائی کریں گے تو آپ کو کہیں نہ کہیں قدیم باقیات ملیں گے۔ چاہے وہ بدھ مت ہوں، جین ہوں، مسلم ہوں یا ہندو آثار۔وہ کہتی ہیں کہ مودی سمیت انڈیا کے وزرائے اعظم اجمیر کی درگاہ پر چادر بھیجتے رہے ہیں جو کہ اہم بات ہے۔ دوسری بات اجمیر کی درگاہ میں جو زائرین جاتے ہیں ان کی اکثریت غیر مسلم ہوتی ہے۔ جبکہ درگاہ کے آس پاس دکانداروں کو معاشی فائدہ ہو رہا ہے، وہ بھی مسلم نہیں ہیں۔
یہ انڈیا کا تمدن اور تصور ہے جو ہمارے بزرگوں سے ہمیں وراثت میں ملا ہے۔ اور جسے اب چیلنج کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔لیکن انڈیا اور انڈین ثقافتی طور پر اتنے عقلمند ہیں کہ وہ انڈیا کے اس تصور کو مغلوب نہیں ہونے دیں گے۔’کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ روحانیت اور محبت کاپیغام دینے والے خواجہ کی درگاہ کے بارے میں کوئی مذ ہبی تنازع پیدہ ہو گا۔یہ مزار صرف روحانیت کا مرکز نہیں ہے، یہ ملک کی مشترکہ تہذیب اور ثقافت کا ایک مظہر ہے۔ اس کے خلاف مقدمہ انڈیا کے تصور اور ملک کی تاریخ کے لیے ایک بہت بڑا نظریاتی چیلنج ہے۔مورخ انیرودھ کانی سیتی نے مسلم عبادت گاہوں اور درگاہوں پر دائیں بازو کی تنظیموں کے بڑھتے ہوئے حملے کے پس منظر میں اپنے ایک مضمون میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے ‘اجمیر کی درگاہ کے خلاف نئی مہم نہ صرف انڈیا کے مسسلمانوں کی تاريخ سے انکار کرنا ہے بلکہ یہ انڈیا کی تاریخ پر ایک براہ راست حملہ ہے۔