عمر عبداللہ کے قصیدے، مودی کی ہنسی
’آج تو آسمان بھی صاف ہوگیا، بادل کا ایک دھبہ بھی نظر نہیں آ رہا۔ موسم سردی کا ہے مگر ہمارے دلوں میں آپ کے لیے گرمی اور جوش ہے۔یہ کلمات تھے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے، جو وہ کشمیر کے سونمرگ علاقے میں زیڈ مہور ٹنل کی افتتاحی تقریب پر آئے وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں بول رہے تھے۔یہ وہی عمر عبداللہ ہیں جنہیں 2019 میں چار اور پانچ اگست کی رات دو مزید وزرائے اعلیٰ سمیت گرفتار کر کے گیسٹ ہاؤس میں قید کردیا گیا تھا۔ چند ہفتوں بعد ان کی لمبی داڑھی والی تصویر وائرل کی گئی تھی۔ رہا ہونے کے بعد انہوں نے نہ صرف سیاست سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا بلکہ یونین ٹریٹری میں انتخابات کبھی نہ لڑنے کا فیصلہ بھی کیا۔مودی کی کشمیر پالیسی کو عوام مخالف قرار دے کر ان کے خلاف محاذ کھڑا کیا اور انتخابی مہم کے دوران بی جے پی مخالف تقاریر سے عوامی جذبات ابھارتے رہے۔
پھر ان کے والد فاروق عبداللہ نے انہیں اسی طرح بہلا پھسلا کر واپس روایتی سیاسی دھارے میں لایا، جیسے ان کے دادا شیخ عبداللہ نے اپنے بیٹے کو نظام کے اندر رہنے کی تلقین کی تھی۔ یہ سلسلہ ابھی چوتھی نسل کی جانب بڑھ رہا ہے، جس کا ثبوت حالیہ تقریبات میں عمر عبداللہ کے دو بیٹوں کی موجودگی سے ملتا ہے۔پارلیمانی انتخابات میں شکست کے بعد، چند ماہ پہلے اسمبلی انتخابات میں عمر عبداللہ اور ان کی پارٹی نے انتخابات جیتے، جس میں عوام کے ایک بڑے طبقے نے آرٹیکل 370 کی بحالی کے لیے ووٹ دیا، جو اس پارٹی کے انتخابی منشور میں سرِفہرست تھا۔حکومت بننے کے بعد یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ جیسے حکمران جماعت پر سکتہ طاری ہے اور وہ بی جے پی کی کشمیر مخالف پالیسیوں پر اُف بھی نہیں کر پا رہی۔
کیا یہ جماعت کی کوئی حکمت عملی ہے یا بی جے پی کے ساتھ پس پردہ کوئی ہم آہنگی پیدا ہوئی ہے؟ بعض تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ نیشنل کانفرنس کا ہمیشہ ایسا ہی طرزِ عمل رہا ہے۔ عوام ان پر اعتماد کرکے بار بار ہاتھ ملتے رہتے ہیں۔لگتا ہے بی جے پی نے کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد میں دراڑ پیدا کرنے کے لیے نیشنل کانفرنس کی خدمات حاصل کی ہیں۔ اس کا واضح ثبوت عمر عبداللہ کا وہ بیان ہے، جس میں انہوں نے کانگریس کو الیکشن مشینوں پر سوال اٹھانے سے گریز کرنے کو کہا۔پھر راہل گاندھی نے وزیرِاعظم کے قصیدے پڑھنے پر عمر عبداللہ کی یو ٹرن کو نشانہ بنایا۔ بدلے میں شاید عمر عبداللہ کو ریاستی درجہ اور اقتدار پر لمبے عرصے تک قابض رہنے کا وعدہ کیا گیا ہوگا۔’ کشمیر کے صحافی اظہر حسین تانترے کا خیال ہے۔
پیپلز کانفرنس کے ایک سرکردہ ورکر، محمد سبحان بٹ، کہتے ہیں: ‘جس پارٹی نے بی جے پی کو سزا دینے اور مسلم اکثریتی خطے سے دور رکھنے کے لیے ووٹ مانگا، یا دوسری پارٹیوں کو بی جے پی کی اے یا بی ٹیم قرار دے کر عوام میں بدظنی پیدا کی، آج وہی پارٹی بی جے پی کے لیے قصیدے پڑھ رہی ہے، پس پردہ ایک دوسرے کے قریب ہورہی ہے اور اندرونی خودمختاری کے خاتمے کے فیصلے کو قبول کررہی ہے۔یہی پالیسی پی ڈی پی نے 2014 میں اپنائی تھی، جب اس نے بی جے پی کے خلاف ووٹ لے کر پھر اسی پارٹی سے ہاتھ ملا کر عوام پر غضب ڈھایا۔اپوزیشن پارٹیوں نے الزام لگایا ہے کہ نیشنل کانفرنس اور بی جے پی کے درمیان اندرونی طور پر اس بات پر اتفاق ہوچکا ہے کہ نیشنل کانفرنس اپنا مطالبہ محض ریاستی درجہ بحال کرنے تک محدود رکھے گی اور اندرونی خودمختاری کی بحالی پر مستقبل میں کوئی بات نہیں کرے گی۔محبوس پارلیمانی رکن انجینئر رشید کی پارٹی عوامی اتحاد کے سرکردہ رہنما شیخ عاشق کہتے ہیں: ’اس پارٹی نے ستر برس سے اس قوم کا استحصال کرکے خاندانی سیاست کو برقرار رکھا ہے، مگر اس بار ایک ایک گناہ کا حساب دینا ہوگا، جس کے باعث کشمیریوں کے وقار کو اس حد تک زک پہنچایا گیا ہے کہ اب وہ کھل کر بات بھی نہیں کرسکتے۔
نیشنل کانفرنس کے رہنما قصیدے پڑھنے کے بعد عوامی ردعمل کے بارے میں خاموش ہیں اور شاید پارٹی کو سوشل میڈیا سے دور رہنے کی تلقین کی گئی ہے۔ مگر عوام، خصوصاً ان کے ووٹر، سوشل میڈیا پر عمر عبداللہ اور ان کی پارٹی پر شدید تنقید کر رہے ہیں اور انہیں حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔جس طرح کے پُرآشوب حالات سے کشمیری گزر چکے ہیں، اس کا سہرا اس سیاسی جماعت کے سر ہے، جب اس نے 1947 میں الحاقِ ہندوستان کی وکالت کرکے عوام کو مختلف گروپوں میں تقسیم کردیا۔ پھر ستر کی دہائی میں وزیرِاعظم سے وزیرِاعلیٰ کی کرسی قبول کرکے اندرونی خودمختاری کی عمارت سے وہ ستون نکالے، جن کو آئین میں برقرار رکھنے کی ضمانت شیخ عبداللہ نے الحاقِ ہندوستان کی حمایت کے وقت لی تھی۔اب بھی اس تاریخ کو دہرایا جارہا ہے۔سابق وزیرِاعظم بخشی غلام محمد اور غلام محمد صادق کے دورِ اقتدار میں، شیخ عبداللہ کی اسیری کے دوران، بیشتر بھارتی قوانین ریاست پر نافذ کیے گئے تھے۔ امید کی جارہی تھی کہ شیخ عبداللہ رہائی کے بعد پہلے ان کے اطلاق کو کالعدم قرار دینے کی شرط رکھیں گے، لیکن انہوں نے اس کے برعکس وزیرِاعلیٰ کی کرسی کو ترجیح دی۔
اس وقت بھی عوام پر سکتہ طاری ہوا تھا اور شیخ عبداللہ سے پوچھا گیا کہ چودہ برس جیل جانے کی کیا ضرورت تھی، جب ریاست کی خصوصی حیثیت کی پامالی کو بغیر کسی مزاحمت کے قبول کرنا تھا۔ البتہ عوام کے بیشتر طبقوں نے نیشنل کانفرنس سے کنارہ کشی نہیں کی۔سوشل ورکر اور آزادی پسند عرفان میر کہتے ہیں: ’اس پارٹی پر انتخابات میں بار بار دھاندلیوں کا الزام بھی عائد ہوتا رہا ہے، جس میں ماضی کی بھارتی حکومت شراکت دار رہی ہے، کیونکہ یہ پارٹی آزادی پسندوں کی تحریک مٹانے پر بھارتی حکومت کی پالیسیوں کی ہمیشہ آبیاری کرتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے بھی آخر کار اسی پارٹی کے سہارے اس خطے پر کنٹرول برقرار رکھنے کی نئی حکمتِ عملی بنائی ہے۔انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں لوگوں نے منتخب حکومت سے کافی امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں لیکن یونین ٹریٹری اور نیشنل کانفرنس کے بی جے پی کے قریب آنے سے عوامی جذبات مجروح ہیں اور روزمرہ مسائل کا حل تقریباً ناممکن لگ رہا ہے۔