’جنگ بندی معاہدہ طے ہوچکا لیکن دنیا کو اسرائیلی مظالم بھولنے نہیں چاہئیں‘

1db1beb0-d37f-11ef-a118-e59aa5b2fa98.jpg

بلآخر 15 ماہ بعد غزہ میں جاری نسل کشی کو روک دیا گیا ہے۔ اب یہ معاہدہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں مستقل جنگ بندی کا باعث بنتا ہے یا نہیں، اس حوالے سے یقین سے کچھ کہا نہیں جاسکتا۔فی الحال فلسطینیوں کو اتنا وقفہ ملا ہے کہ وہ اپنے شہدا کا غم منا سکیں جن کی تعداد 46 ہزار سے بھی زائد ہے جبکہ زیادہ تر کی میتیں اب بھی ملبے تلے دبی ہیں۔ وہ اپنے زخموں پر مرہم رکھ سکتے ہیں اور اس دوران یہ مستقل ڈر نہیں ہوگا کہ وہ کسی وقت بھی اسرائیلی بمباری کا نشانہ بن سکتے ہیں۔تین مراحل پر مشتمل جنگ بندی کا معاہدہ قطر، مصر اور امریکا کی ثالثی میں بدھ کے روز طے پایا جس میں حماس اور اسرائیل کے درمیان یرغمالیوں کے تبادلے کی شرط شامل ہے، غزہ کے عوام کو امداد کی فراہمی بحال جبکہ غزہ کی پٹی سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا بھی معاہدے کا حصہ ہے۔

اب یہ تل ابیب کی سنجیدگی پر منحصر ہے کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے کی پاس داری کیسے کرتے ہیں۔ البتہ جنگ بندی کا اعلان ہونے کے باوجود (جس کا اطلاق اتوار سے ہوگا) اسرائیل کی جانب سے غزہ میں قتل و غارت گری کا سلسلہ جاری ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ حماس کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی۔ تاہم ایسا نہیں ہوا اور تل ابیب نے فلسطینی مسلح گروہ سے معاہدہ کرلیا۔ اس نے ظاہر کیا کہ جدید امریکی ہتھیاروں سے لیس دنیا کی سب سے مسلح افواج بھی قابض لوگوں کے جذبے کو توڑ نہیں پائیں جنہوں نے ہزاروں جانیں قربان کردیں لیکن اپنی زمین سے دستبردار ہونے سے انکار کردیا۔

جہاں یہ امید کی جارہی ہے کہ یہ امن معاہدہ مستقل جنگ بندی میں تبدیل ہوگا اور غزہ کے عوام کو جلد از جلد امداد کی فراہمی ہوگی وہیں دنیا کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اسرائیل نے اس چھوٹی سی ساحلی پٹی میں ان 15 ماہ میں کیا مظالم ڈھائے ہیں۔ہزاروں افراد شہید ہوگئے، قیدیوں کے ریپ اور ان کے استحصال سے متعلق رپورٹس سامنے آئیں، کمسن بچوں کی سردی سے جم کر اموات ہوئیں، آبادی کے ایک بڑے حصے نے بھوک و افلاس کا سامنا کیا جبکہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں صاف پانی کی رسائی بھی منقطع کردی گئی تھی۔ ان تمام جرائم کی مکمل تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے اور مجرمان کو احتساب کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔

انٹرنیشنل کرمنل کورٹ (آئی سی سی) میں جنگی جرائم کے مقدمات کی سماعت اور جنوبی افریقہ کی جانب سے عالمی عدالت (آئی سی جے) میں دائر نسل کشی کے مقدمات کی مکمل طور پر پیروی ہونی چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ اسرائیل دوبارہ فلسطینی عوام کو ان بہیمانہ جنگی جرائم کا نشانہ نہ بنا سکے۔جنگ کے بعد کیا ہوگا، اس حوالے سے بہت سی تجاویز دی جاتی ہیں لیکن قضیہ فلسطین کا پائیدار حل آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔ ایسا کرنے کے لیے سب سے پہلے اسرائیل کو تمام مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے قبضہ ختم کرنا ہوگا جبکہ ایک خود مختار عرب ریاست کے قیام کے لیے اتفاق کرنا ہوگا۔

ٹکڑوں میں تقسیم فلسطینی آبادی جنہیں اسرائیل باآسانی اپنی جارحانہ کارروائیوں کا نشانہ بنا سکتا ہے، مسئلے کا حل نہیں ہے۔ غزہ کی نسل کشی نے فلسطینی اتھارٹی کی مکمل بے بسی کو بھی آشکار کیا کہ کس طرح وہ عالمی سطح پر فلسطین کا مقدمہ لڑنے میں ناکام رہی۔ تمام فلسطینی تنظیمیں بالخصوص حماس اور فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کو متحد ہوکر قابھ قوت کا یکجہتی سے مقابلہ کرنا ہوگا۔اگر اسرائیل ایک بار پھر اپنے قریبی ساتھی واشنگٹن کا سہارا لے کر اپنی جارحانہ روش پر واپس آتا ہے تو فلسطینیوں کے پاس مزاحمت کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے