صیہونی مفادات کا محافظ
ھیئت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے سعودی عرب کے ٹی وی چینل العربیہ کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ دعوی کیا ہے کہ اسرائیل اگلے مرحلے میں شام پر حملے کی تیاریوں میں مصروف تھا اور اگر ایسا ہو جاتا تو ایران اور عراق اسرائیل کی فوجی پیشقدمی روکنے کے لیے اس کے خلاف براہ راست جنگ کا اعلان کر دیتے جس کے نتیجے میں ایک بڑی جنگ شروع ہو جاتی جبکہ ترکی بھی ایران کے شانہ بشانہ اسرائیل کے خلاف لڑنے پر مجبور ہو جاتا، لیکن ہم نے صدر بشار اسد کی حکومت گرا کر اس بڑی جنگ کا خطرہ ٹال دیا ہے۔ ابو محمد الجولانی کے موقف کا واضح مطلب یہ ہے کہ طوفان الاقصی آپریشن کے بعد پوری اسلامی دنیا کے پاس اسرائیل نامی سرطانی غدے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا سنہری موقع میسر ہو گیا تھا اور اسلامی دنیا اسرائیل کے خلاف ایک صفے پر متحد ہو رہی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں ہونے دیا اور یہ موقع ضائع کر دیا ہے۔ درحقیقت ابو محمد الجولانی نے العربیہ ٹی وی چینل سے انٹرویو میں اس اظہار خیال کے ذریعے ثابت کر دیا ہے کہ وہ حتی اعلانیہ طور پر خود کو غاصب صیہونی رژیم کا ایجنٹ ظاہر کرنے میں بھی کوئی شرم حیا محسوس نہیں کرتا۔
ابو محمد الجولانی ایسا اسرائیلی ایجنٹ ہے جس نے غزہ میں دسیوں ہزار شہداء کی قربانیاں ضائع کر دی ہیں اور عالمی صیہونزم کی ایسی خدمت کی ہے جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ البتہ یہ قصہ صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتا بلکہ الجولانی کی نسل اور شجرے کے بارے میں بھی کچھ ایسی دستاویزات پائی جاتی ہیں جو سنسنی خیز حقائق بیان کرتی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار میدز پالزویگ نے سوشل میڈیا کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے ایک پیغام میں ھیئت تحریر الشام کے سربراہ کے بارے میں بہت ہی دلچسپ حقائق فاش کیے ہیں۔ اس نے اپنی پیغام میں ابو محمد الجولانی کے بارے میں لکھا: "کس قدر غیر متوقع ہے کہ شام کے باغیوں کا سربراہ اسرائیل کے جاسوسی ادارے کا ایجنٹ ہے۔ وہ یہودی ہے اور اس نے تل ابیب میں اسلامی فقہ کالج سے تعلیم مکمل کی ہے۔” شام میں صدر بشار اسد کی حکومت گر جانے کے بعد غاصب صیہونی رژیم نے شام پر وسیع فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ان حملوں میں جن مراکز کو نشانہ بنایا گیا ان میں سے ایک سول رجسٹری کا مرکز بھی تھا جہاں تمام شہریوں کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ اس حملے کا اصل مقصد ابو محمد الجولانی کا حقیقی چہرہ چھپانا تھا تاکہ کسی کو معلوم نہ ہو سکے کہ وہ اصل میں یہودی ہے۔
اس مرکز پر بمباری کا ایک اور مقصد ان تمام دہشت گرد عناصر کو شامی ظاہر کرنا بھی ہو سکتا ہے جن کا تعلق دنیا کے مختلف ممالک سے ہے اور وہ تکفیری دہشت گرد گروہوں کی طرف سے شام میں دہشت گردانہ سرگرمیاں انجام دینے میں مصروف ہیں۔ اسرائیل نے اسی طرح شام کے تمام انٹیلی جنس اور علمی مراکز کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ صیہونی رژیم کے ایجنٹس نے شام میں مختلف شعبوں کے ماہرین کی ٹارگٹ کلنگ بھی انجام دی ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد ابو محمد الجولانی نے بڑے بڑے دہشت گردوں کو سرکاری عہدے بھی دیے ہیں، جیسے عبدالعزیز داود خدابردی جو ابو محمد ترکستانی کے نام سے مشہور تھا اور وہ عراق میں القاعدہ کا سرغنہ تھا۔ وہ الزرقاوی کے ساتھ کام کرتا تھا اور ترکی کے راستے شام میں داخل ہونے کے بعد ادلب میں ابو محمد الجولانی کے ساتھ مل گیا۔ ابو محمد ترکستانی چینی تکفیری دہشت گرد عناصر کا کمانڈر تھا۔ اسی طرح ایک اور دہشت گرد جسے الجولانی نے اعلی عہدہ دیا ہے عبدالرحمان حسین ہے جس کا تعلق اردن سے ہے۔ عمر محمد جفتشی کا تعلق ترکی سے جبکہ تاجکستان کا عبدل صمریز بشاری اور مصر کا علاء محمد عبدالباقی بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
مرہف ابوقصرہ کو وزیر جنگ بنایا گیا ہے اور علی نور الدین النعسان کو چیف آف آرمی اسٹاف بنایا گیا ہے۔ یوں الجولانی کی سربراہی میں نئی شام حکومت میں پانچ تکفیری دہشت گرد بریگیڈیئر اور 42 دہشت گرد کرنل کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں جن میں سے اکثریت غیر ملکی ہیں۔ خود ھیئت تحریر الشام کا سربراہ ابو محمد الجولانی بھی ایک امریکی اینجٹ ہے۔ وہ بھی داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی کی طرح عراق میں امریکہ کے زیر انتظام جیل "بوکا” کا قیدی تھا۔ یہ وہ جیل ہے جہاں تکفیری دہشت گرد گروہوں کے سربراہان اور کمانڈرز کی پرورش کی گئی تھی۔ اب امریکہ اپنے اس ایجنٹ کا اچھا چہرہ پیش کر رہا ہے اور اسے پینٹ کوٹ اور ٹائی پہنا کر جمہوری لیڈر اور سیاست دان بنانے کے چکر میں ہے۔ امریکی چینل کے طور پر سی این این ابو محمد الجولانی کی تطہیر میں مرکزی کردار ادا کر رہا ہے۔ امریکہ کے ساتھ ساتھ ترکی بھی اس عمل میں آگے آگے ہے اور ماضی میں انجام پانے والے بہیمانہ جرائم پر پردہ ڈال کر اس دہشت گرد سرغنے کو جمہوریت پسند اور ترقی پسند سیاست دان کے طور پر متعارف کروایا جا رہا ہے۔