’نسل کش سیکریٹری‘: اینٹنی بلنکن کی تقریر کے دوران فلسطینی حامیوں کے نعرے
امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کو فلسطین کے حامیوں کی جانب سے اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب ایک تقریب کے دوران وہ غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے بعد بین الاقوامی سکیورٹی فورسز اور اقوام متحدہ کی عبوری قیادت کی تجویز پیش کر رہے تھے۔14 جنوری کو فلسطین کے حامی مظاہرین نے واشنگٹن میں اٹلانٹک کونسل میں اینٹنی بلنکن کی تقریر کے دوران مداخلت کی اور ان پر فلسطینیوں کی نسل کشی کا الزام لگاتے ہوئے Secretary of genocide یعنی ’نسل کش سیکریٹری‘ اور ’جنگی مجرم‘ قرار دیا۔اس موقعے پر اسرائیل کی سفارتی حمایت کرنے پر بھی اینٹنی بلنکن پر تنقید کی گئی۔ جس کے بعد منتظمین نے نعرے بازی کرنے والے فلسطین کے حامی افراد کو کمرے سے باہر نکال دیا۔اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کی جانب سے عالمی عدالت میں ایک مقدمہ بھی دائر کیا گیا تھا، جس میں اس پر نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات عائد کیے گئے۔ تاہم اسرائیل ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
عہدے سے سبکدوش ہونے سے چند روز قبل اپنی اس تقریر کے دوران امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے غزہ میں فائربندی کے لیے قطر میں ہونے والے مذاکرات اور اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کے بعد غزہ کے لیے اپنی حکمت عملی پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے اسرائیل کو فلسطینی ریاست کے قیام کا راستہ اپنانا پڑے گا۔فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اینٹنی بلنکن نے اٹلانٹک کونسل میں کہا: ’اگر واضح متبادل، لڑائی کے بعد کا منصوبہ اور فلسطینیوں کے لیے ایک قابل اعتبار سیاسی افق نہیں ہوگا تو حماس یا اس سے بھی زیادہ خوفناک اور خطرناک کوئی اور قوت دوبارہ ابھرے گی۔‘امریکی وزیر خارجہ نے اُس خلا کی طرف اشارہ کیا جو اسرائیل کی غزہ پر مسلسل بمباری کے نتیجے میں پیدا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا، ’ہمارے اندازے کے مطابق حماس نے تقریباً اتنے ہی نئے جنگجو بھرتی کیے ہیں جتنے اس کے مارے گئے ہیں۔ یہ ایک مستقل بغاوت اور دائمی جنگ کا نسخہ ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کی حدود کو تسلیم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کئی ممالک نے جنگ کے بعد غزہ میں فوج اور پولیس بھیجنے کی پیشکش کی ہے۔انہوں نے کہا کہ ’عبوری سکیورٹی مشن‘ میں غیر ملکی افواج اور ’فلسطینی اہلکار‘ دونوں شامل ہوں گے۔اینٹنی بلنکن کے مطابق: ’ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطینی اتھارٹی کو بین الاقوامی شراکت داروں کو غزہ میں اہم سول شعبوں جیسے بینکنگ، پانی، توانائی، صحت کی ذمہ داری کے ساتھ ایک عبوری انتظامیہ کے قیام اور چلانے میں مدد کے لیے مدعو کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل اور باقی عالمی برادری کے ساتھ تعاون کرے گی، جن سے فنڈز فراہم کرنے کے لیے کہا جائے گا۔ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کا ایک سینیئر عہدیدار اس عمل کی نگرانی کرے گا، جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کے ذریعے شامل کیا جائے گا۔
اینٹنی بلنکن نے مزید کہا کہ عبوری انتظامیہ میں غزہ کے فلسطینی نمائندوں کو شامل کیا جائے گا ، جنہیں ’بامعنی مشاورت‘ کے بعد منتخب کیا جائے گا اور ’جیسے ہی ممکن ہو‘ مکمل کنٹرول فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کر دیا جائے گا۔سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے، جس میں 1200 افراد مارے گئے اور تقریباً 250 افراد کو قیدی بنا لیا گیا تھا، کے بعد اسرائیل نے غزہ پر زمینی اور فضائی حملے کیے۔غزہ کی مقامی صحت کی وزارت کے مطابق اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں 46 ہزار سے زائد فلسطینی جان سے جا چکے ہیں۔اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں غزہ کی تقریباً 23 لاکھ کی آبادی بے گھر ہو چکی ہے اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔