جنوبی افریقہ: سونے کی کان سے 36 لاشیں نکال لی گئیں، زندہ بچ جانے والے 82 کان کن گرفتار

15110854f943792.jpg

جنوبی افریقہ میں سونے کی کان سے 36 لاشیں نکال لی گئیں، زندہ بچ جانے والے 82 افراد کو پولیس نے گرفتار کرلیا۔رپورٹس کے مطابق پولیس بریگیڈیئر ایتھلنڈا ماتھے نے بتایا کہ پیر کے روز 9 لاشیں برآمد ہونے کے بعد منگل کو مزید 27 لاشوں کو زیر زمین سے نکال لیا گیا۔قبل ازیں پولیس کے لیفٹیننٹ جنرل ٹیبیلو موسیکیلی نے جائے وقوعہ پر موجود صحافیوں کو بتایا کہ جوہانسبرگ سے تقریباً 140 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع اسٹلفونٹین کے قریب سائٹ پر سونے کی تلا ش کرنے والے کان کنوں کو باہر نکالنے کے لیے ریسکیو آپریشن کیا گیا۔پولیس ترجمان نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ تقریباً 1500 افراد رضاکارانہ طور پر سائٹ چھوڑ چکے ہیں، کمیونٹی لیڈر جوہانس کنکاسے نے کہا کہ وہ بہت بیمار اور پانی کی کمی کا شکار ہیں، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ وہ تقریباً مرنے کے قریب ہیں۔

کان کنی کی پیشہ ور کمپنی نے ’ریسکیو ونڈر‘ نامی ایک مشین نصب کی تھی تاکہ زمین میں سوراخ کر کے کان کنوں تک پہنچ سکیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ سیکڑوں افراد اب بھی زیر زمین ہو سکتے ہیں، لیکن ان کی صحیح تعداد واضح نہیں ہے۔کہا جاتا ہے کہ ہزاروں غیر قانونی کان کن، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق دوسرے ممالک سے ہے، جنوبی افریقہ میں لاوارث کانوں میں کام کرتے ہیں۔جنوبی افریقہ کی معدنیات کونسل کے مطابق، ملک میں دنیا کی سب سے گہری سونے کی کانیں ہیں، جو زیر زمین کئی کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہیں۔پولیس حکام کے مطابق سطح پر پہنچنے کے بعد بہت سے کان کنوں کو اسپتال لے جایا گیا، جب کہ 2 کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ پولیس کی تحویل میں ہیں۔سرکاری عہدیداروں نے منگل کے روز جائے وقوعہ کا دورہ کیا۔حکام پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ کان کنوں کو ارد گرد کی کمیونٹی کی جانب سے فراہم کی جانے والی خوراک اور پانی کی فراہمی کا گلا گھوٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

مقامی عدالت نے نومبر میں حکم دیا تھا کہ پولیس کانوں پر عائد پابندیاں ختم کرے، تاکہ لوگوں کو زمین کے نیچے جانے والے لوگوں کو کھانا اور پانی کم کرنے کی اجازت مل جائے گی۔نومبر کے وسط میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ 4 ہزار افراد زیر زمین ہیں، لیکن پولیس کا کہنا ہے کہ یہ تعداد شاید سیکڑوں میں ہے۔کان کنوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی 2 تنظیموں کی جانب سے پیر کو جاری کی گئی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کئی لاشیں پلاسٹک میں لپٹی ہوئی ہیں۔جائے وقوعہ پر موجود صحافیوں نے پیر کو پنجرے سے لاشوں کے کئی تھیلے نکالے جانے کی ویڈیو بنائی۔گزشتہ ہفتوں کے دوران، کان کنوں (جو باہر نکلے ہیں) نے شدید بھوک اور پانی کی کمی سمیت زیر زمین سنگین حالات کی اطلاع دی تھی، کچھ کو مناسب دستاویزات کے بغیر جنوبی افریقہ میں ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔مقامی طور پر ’زاما زماس‘ کے نام سے پہچانے جانے والے غیر ملکی جو کہ زولو زبان بولتے ہیں، کان کنی کی کمپنیوں کو مایوس کرتے ہیں اور رہائشیوں کی طرف سے اکثر ان پر جرم کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔