پاکستان میں دہشتگردوں کی بدلتی ہوئی حکمت عملی

TTP.jpg

پاکستان میں شدت پسندی کے بڑھتے واقعات نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان جیسے حساس اور شورش زدہ علاقوں میں امن و امان کی صورت حال پر پھر سوال اٹھا دیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق حالیہ مہینوں میں سیکیورٹی فورسز پر حملوں، اغوا برائے تاوان کی وارداتوں اور سرحدی علاقوں میں رات کے اوقات میں شدت پسندوں کی آزادانہ نقل و حرکت ریاستی عمل داری کے لیے بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔

طالبان کی واپسی کے بعد معاملات مزید بگڑے

ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کی واپسی اور اس کے پاکستان کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کے باعث شدت پسندوں کو پنپنے کا موقع ملا ہے۔

شدت پسند اپنی حکمت عملی تبدیل کر رہے ہیں

سنگاپور میں شدت پسندی کے موضوع پر تحقیق کرنے والے ایک محقق عبدالباسط کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کے طریقہ واردات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 3 برسوں میں شدت پسندوں کے حملے زیادہ تر سیکیورٹی اداروں تک محدود تھے لیکن اب انہوں نے اپنی حکمتِ عملی میں واضح تبدیلی کرتے ہوئے اغوا برائے تاوان، بینک ڈکیتیوں اور سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو نوکریاں چھوڑنے کی دھمکیوں جیسے اقدامات شروع کر دیے ہیں۔

سنگین جرائم اور جرگے کے ذریعے جان خلاصی

واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں پاکستان میں پولیس، لیویز اور سول انتظامیہ کے اہلکاروں کے اغوا کے واقعات اور پھر جرگوں کے ذریعے رہائی ایک معمول کی بات بنتی جا رہی ہے۔حال ہی میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے جنگجو ایک حساس اور ملک کے لیے اہم نوعیت کے ادارے سے وابستہ افراد کو بھی اغوا کر چکے ہیں۔ اس واقعے کے بعد مختلف عمائدین کی کوششوں سے ٹی ٹی پی کے ساتھ جرگے کی کئی نشستیں منعقد کی جا چکی ہیں لیکن تاہم صورت حال بدستور تشویش ناک ہے۔

شدت پسندوں کا گشت اور رہائشیوں میں خوف

عبدالباسط کا کہنا ہے کہ شدت پسندوں کی جانب سے سابقہ قبائلی علاقوں میں پیٹرولنگ نے مقامی رہائشیوں کے خوف و ہراس کو خطرناک حد تک بڑھا دیا ہے جو کہ ریاستی رٹ کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتا جا رہا ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ تمام عوامل شدت پسندوں کی بڑھتی ہوئی طاقت اور ان کے دائرہ کار کی وسعت کو ظاہر کرتے ہیں۔

دہشتگردوں کے دائرہ کار میں وسعت

ان کے مطابق پہلے ٹی ٹی پی کی کارروائیاں سابقہ قبائلی علاقوں تک محدود تھیں لیکن اب انہوں نے جنوبی اضلاع کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ان علاقوں میں شدت پسند کھلے عام حکومتی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں جو سیکیورٹی اداروں کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے۔عبد الباسط خطے میں ٹی ٹی پی کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو حکومت کی غیر واضح اور غیر مؤثر پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ان کے بقول شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے حکومتی حکمتِ عملی میں تسلسل اور وضاحت کا فقدان ہے۔وہ کہتے ہیں کہ وہاں کی مقامی آبادی کا حکومت اور ریاست پر بداعتمادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے جس کا فائدہ اٹھا کر ٹی ٹی پی نے نہ صرف اپنی کارروائیاں بڑھا دی ہیں بلکہ نئے علاقوں تک اپنے اثر و رسوخ کو بھی بڑھا رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے