مروت کی بے مروتی!
جب بھی کہیں بڑے لیڈروں کو قید و بند میں ڈال دیا جاتا ہے تو چھوٹے لوگ اس کی جگہ لینے کے لیے موسمی مینڈکوں کی طرح ٹرٹر شروع کرتے ہیں؛ ایسے لوگوں کی نشانی یہ ہے کہ یہ کبھی عقلی، اصولی، نظریاتی اور فکری بات نہیں کرتے، بلکہ مختلف چٹکلوں سے میڈیا اور سوشل میڈیا پہ زندہ رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔تحریک انصاف پر اس وقت ایسا ہی وقت آیا ہوا ہے؛ ملک گیر انصاف کا نعرہ و جذبہ رکھنے والی تنظیم اپنے ہی زیر انتظام کرم ایجنسی میں تقریباً سو دن سے محصور پاکستان کے وفاداروں، یعنی اہل پارا چنار کو انصاف فراہم کرنے میں بلکل ناکام ہے۔شیر افضل مروت جیسے لوگوں کو علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے بیانات ہضم نہیں ہوئے، علامہ صاحب کی باتوں کو قبول کرنے کے لئے اخلاقی جرأت چاہیے جو ہمارے اکثر سیاستدانوں، بلکہ طلاب و علماء میں بھی ناپید ہے۔عمران خان کو اگر پاکستان میں کرپشن کے خلاف ایک سنبل سمجھا جاتا ہے تو علامہ صاحب پاکستانی سیاست میں عدل و انصاف و حق گوئی کا استعارہ ہیں۔
عوامی تحریک کے شہداء کی حمایت سے لے کر رجیم چینج آپریشن کے بعد کی لاقانونیت، ظلم و بربریت کے خلاف علامہ صاحب پہاڑ کی مانند ڈٹے ہوئے ہیں۔ علامہ صاحب کو پاکستان میں استعمار مخالف توانا آواز سمجھا جاتا ہے۔ علامہ صاحب کی سیاسی بصیرت، استقامت و جرأت کے ان کے دشمن بھی معترف ہیں، یہی وجہ ہے کہ شیر افضل مروت جیسا چٹکلے باز بھی ان کی شخصیت پر کوئی حملہ نہیں کرسکا سوائے اس کے کہ "علامہ صاحب ہمارے اتحادی ہیں اتحادیوں کو اس طرح کے بیانات نہیں دینے چاہئیں۔”مروت جیسوں نے پاکستان میں کبھی تعمیری، مثبت اور منصفانہ سیاسی روش نہیں دیکھی ہے۔ ان کے نزدیک اتحادی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اتحادی کے ہر عمل کی تائید اور تعریف، جبکہ اپوزیشن کے ہر عمل کی مخالفت ہو۔علامہ راجہ ناصر جیسی حق گو شخصیت نے پاکستانی سیاست میں اس مستقل روش کو توڑا ہے۔ حکومتی اتحادی بن کر حکومت کی ہر غلطیوں اور مظالم کی حمایت کرنے کی اس روش کو پہلی مرتبہ علامہ اور ان کے نظریاتی دوستوں نے ختم کیا ہے۔
مروت صاحب میں ذرہ برابر بھی مروت ہوتی تو وہ علامہ صاحب کی باتوں کی بھر پور حمایت کرتے، چونکہ مروت اردو زبان میں انسانیت، انصاف، جوانمردی، حمیت، غیرت اور مردانگی کا نام ہے پھر اس نام کے علاؤہ ان کے نام میں شیر اور افضل کا لاحقہ بھی ہے، مگر افسوس کہ انہوں نے اس موضوع پر اپنے نام کے کسی بھی حصے کا بھرم نہیں رکھا۔مانتا ہوں کہ گنڈا پور نے اپنے ہیلی کاپٹرز بھیج کر مدد کی، مانتا ہوں کہ بارڈر ایریا ہونے کی وجہ سے یہ روڈ وفاقی حکومت کے انڈر میں ہے۔مانتا ہوں کہ تحریک انصاف کی واحد صوبائی حکومت کے خلاف ساری طاقتیں سازش کررہی ہیں، مگر اس سے صوبائی حکومت کی کمزوریاں چھپ نہیں سکتیں، صوبائی حکومت اگر مخلص اور جرأت مند ہوتی تو آج پارا چنار کی یہ صورت حال نہ ہوتی۔
اب تک فقط غذا و ادویات کی قلت سے دوسو کے قریب پھول جیسے معصوم بچے اور بچیاں ہمیشہ کے لئے مرجھا گئے ہیں۔ کئی معصوم بچے خالی ہسپتالوں میں بےبس و مجبور ماؤں کی گود میں رفتہ رفتہ مرجھائے جارہے ہیں۔ غذائی قلت نے علاقے میں قحط کا سماں پیدا کیا ہے۔ دوسرے آفت زدہ ملکوں میں امدادی سامان بھیجنے والی وفاقی حکومت اپنے ہی ملک میں کوئی بھی امداد بھیجنے کے بجائے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ عورتوں کے حقوق کے لئے یومِ خواتین پر لاکھوں لٹانے والی سندھ حکومت کو ابھی تک پارا چنار کی مظلوم خواتین اور چھوٹی بچیوں کا کوئی خیال نہیں۔ان سے پارا چنار کے حق میں ہونے والے پرامن دھرنے بھی برداشت نہیں ہوئے۔پرامن احتجاج کرنے پر بزرگ علماء سمیت کئی جوانوں پر ایف آئی آر کٹ چکی ہے۔ پولیس کی بے جا فائرنگ سے ہمارے دونوجوان شہید، جبکہ کئی زخمی ہیں، اس کے باوجود ایف آئی آر بھی ہمارے خلاف کاٹی ہے۔ پارا چنار میں اب تک افغانستان سمیت چاروں طرف سے ہونے والے حملے میں سینکڑوں نوجوان شہید ہوچکے ہیں۔کئی جوانوں کو جانوروں کی طرح ذبح کرکے ٹکڑے ٹکڑے کر کے لاش واپس دی ہے۔
پارا چنار کے لئے جانے والے امدادی اور آٹے کے ٹرکوں کو مسجدوں سے نکل کر لوٹا جا چکا ہے۔دین کے نام پر ایک ٹولے نے لوٹ مار اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کر رکھا ہے۔دہشتگرد افراد کراچی سے لے کر پارا چنار تک کھلم کھلا شیعوں کو قتل کی دھمکیاں دیتے ہیں، مگر وفاق سمیت صوبائی حکومتوں کی توجہات نہ محاصرہ کرنے والوں کے خلاف ہیں نہ ہی جدید اسلحوں کے ساتھ آکر سڑک بند کرنے والوں کے خلاف ہیں، بلکہ ان کی ساری توجہات پر امن دھرنا دینے والے مؤمنین اور ان دھرنوں کے خلاف رہی ہیں۔وفاقی حکومت نے ایک دن میں لاکھوں لوگوں سے پورے اسلام آباد کو تو خالی کروایا، لیکن سو دن ہوئے ہیں ان کے زیر کنٹرول تیس کلومیٹر کی سڑک دہشت گردوں سے کھلوا نہیں سکی۔افغانستان میں چھپے دہشت گرد دکھائی دیئے اور فضائی حملہ کیا مگر پاکستان میں جدید اسلحوں کے ساتھ لوٹ مار اور قتل و غارتگری کرنے والے وفاقی حکومت کو ابھی تک نظر نہیں آئے۔
بگن کے علاقے میں کانوائی پر حملہ کرنے والے، سرکاری امداد اور سرکاری افسران پر حملہ کرنے والوں اور کھلم کھلا جدید اسلحے کی نمائش کرکے روڈ بلاک کرنے والوں کے خلاف ابھی تک کوئی قابل ذکر کاروائی نہیں ہوئی، لیکن پارا چنار میں مرکزی دھرنا دینے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔کیا یہ ظلم نہیں ہے؟کیا اسے ظلم کہنا اور اس ظلم پر خاموشی اختیار کرنا تحریک انصاف کے منشور کا حصہ ہے؟ کیا ظلم کو ظلم، ظالم کو ظالم کہنا اتحاد کے خلاف ہے؟مروت جیسے بے مروّت لوگ کیا اس کا جواب دیں گے کہ مجلس وحدت المسلمین اور تحریکِ انصاف کے درمیان جن سات شرائط پر اتحاد ہوا ہے، علامہ صاحب نے ان میں سے کس شرط کی مخالفت کی ہے ؟
مروت صاحب!
ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ روڈ بلاک کرنے والے کوئی غیر ملکی نہیں آپ کے اپنے ہیں، امدادی سامان لوٹنے والے بھی آپ کے اپنے ہیں، کانوائی پر شب خون مارنے والے بھی آپ کے اپنے ہیں، مسافروں کو ذبح کرنے والے بھی آپ کے اپنے ہیں، کرفیو توڑنے والے بھی آپ کے اپنے ہیں ؟دراصل یہ اپنوں میں گھسا ہوا تکفیری ٹولہ ہے، جنہیں پاراچنار کے بندے کو محب وطن شیعہ سنی ووٹ پڑنے پر تکلیف ہوئی تھی۔م، جنہیں پاراچنار، صدا و کرم ایجنسی کے اہل سنت نشین علاقوں میں بلند ہوتے شیعہ سنی بھائی بھائی کے نعروں سے تکلیف ہوئی تھی۔
مروت صاحب یاد رکھیں!
سوات، وزیرستان اور مالاکنڈ ڈویژن میں پاک فوج پر حملہ کرنے والے بھی ہمارے اپنے تھے،جی ایچ کیو اور ائیربیسز پر خودکش حملہ کرنے والے بھی ہمارے اپنے تھے۔ اسکول میں گھس کر اساتید کو بےدردی سے شہید کرنے والے بھی ہمارے اپنے تھے، اسکول کے معصوم بچوں پر گولیاں چلانے والے بھی ہمارے اپنے تھے، ٹل سے پاراچنار تک کانوائی کا سبب بھی ہمارے اپنے ہیں، کوئٹہ سے تفتان تک کانوائی کی علت بھی ہمارے اپنے ہیں، آپ کو چاہیے کہ "ہماری عوام” میں اور "ہمارے اپنوں” میں گھسے ہوئے دہشتگردوں اور تکفیریوں میں تمیز کرنے کی جرأت پیدا کریں، تاکہ اپنے نام "شیر افضل مروت” کا ہی کچھ لاج رکھ سکیں شکریہ!
تحریر: محمد بشیر دولتی
نوٹ: بصیر میڈیا پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں بصیر میڈیا اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔