شمالی کوریا کی جانب سے کم فاصلے تک مار کرنیوالے بیلسٹک میزائلوں کا تجربہ

141408210407b21.jpg

جنوبی کوریا کی فوج کے مطابق شمالی کوریا نے سمندر میں کم فاصلے تک مار کرنے والے متعدد بیلسٹک میزائل داغے، جن کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ امریکا کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی آنے والی انتظامیہ کے لیے ایک پیغام ہو سکتا ہے۔رپورٹ کے مطابق یہ تجربہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب جاپانی وزیر خارجہ تاکیشی ایوایا جنوبی کوریا کا دورہ کرنے والے ہیں، جہاں وہ اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔سیئول کی فوج نے بحیرہ جاپان کے نام سے مشہور پانی کے ذخائر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جنوبی کوریا کی فوج نے مشرقی سمندر میں داغے جانے والے کم فاصلے تک مار کرنے والے متعدد بیلسٹک میزائلوں کا سراغ لگایا ہے۔

یہ تجربہ مقامی وقت کے مطابق صبح ساڑھے 9 بجے شمالی کوریا کے علاقے گینگگی کے قریب کیا گیا، جس میں میزائلوں نے سمندر میں اترنے سے قبل 250 کلومیٹر (155 میل) تک پرواز کی۔سیئول کی فوج کا کہنا تھا کہ جنوبی کوریا اور امریکا کے انٹیلی جنس حکام نے شمالی کوریا کے میزائل لانچ کی تیاریوں کا پہلے سے ہی سراغ لگا لیا تھا، ان کی نگرانی کی اور لانچ کے وقت بھی فوری طور پر ان کا سراغ لگا لیا۔جنوبی کوریا کا کہنا ہے کہ ہم مکمل تیاری برقرار رکھے ہوئے ہیں، امریکا اور جاپان کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کر رہے ہیں ، جب کہ مزید لانچوں کے لیے نگرانی اور الرٹ کو مستحکم بنایا جا رہا ہے۔

قائم مقام جنوبی کورین صدر چوئی سانگ موک نے اس تجربے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے، سیئول شمالی کوریا کی اشتعال انگیزی کا جواب اس کی مضبوط سکیورٹی پوزیشن اور امریکا کے ساتھ اتحاد کی بنیاد پر دے گا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ تازہ ترین تجربے کا مقصد آنے والی ٹرمپ انتظامیہ کے لیے ایک پیغام ہو سکتا ہے، سیئول میں یونیورسٹی آف نارتھ کورین اسٹڈیز کے صدر یانگ مو جن کا کہنا ہے کہ اس کا ہدف امریکا ہو سکتا ہے، یہ ٹرمپ انتظامیہ کی دوسری مدت سے پہلے دباؤ ڈالنے کے ارادے کی نشاندہی کرتا ہے۔

موجودگی کا دعویٰ

ورلڈ انسٹیٹیوٹ فار نارتھ کوریا اسٹڈیز کے سربراہ آہن چن ال نے بتایا کہ ایسا لگتا ہے کہ اس تجربے کا مقصد ٹرمپ انتظامیہ سے پہلے اپنی موجودگی ثابت کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کا مقصد سیئول کے اپنے بحران کے دوران جنوبی کوریا کو غیر مستحکم کرنا بھی ہو سکتا ہے، کیوں کہ معطل صدر یون سک یول کو مواخذے کے مقدمے کا سامنا ہے، جو گزشتہ ماہ مارشل لا کی ناکام کوشش کے بعد آج سے آئینی عدالت میں شروع ہو رہا ہے۔دونوں کوریا ممالک کے درمیان تعلقات گزشتہ برسوں کی کم ترین سطح پر ہیں، شمالی کوریا نے گزشتہ برس اقوام متحدہ کی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بیلسٹک میزائل داغے تھے، پیانگ یانگ کی جانب سے گزشتہ ہفتے ایک نیا ہائپر سونک میزائل سسٹم داغے جانے کے بعد یہ رواں سال کا دوسرا تجربہ ہے۔شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا کے سی این اے کی جانب سے جاری کی گئی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان اپنی نوعمر بیٹی جو اے ای کے ساتھ گزشتہ ہفتے ہونے والے میزائل تجربے کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

روس کی حمایت

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو کا اختیار رکھنے والا روس شمالی کوریا کو باضابطہ طور پر جوہری ریاست کے طور پر قبول کر لے گا، جس سے عالمی اتفاق رائے کو دھچکا لگے گا کہ پیانگ یانگ کو اپنا پروگرام ختم کرنا چاہیے۔اکتوبر کے اواخر میں شمالی کوریا نے اپنے سب سے جدید اور طاقتور بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (آئی سی بی ایم) کا تجربہ کیا تھا، اس کے چند دن بعد اس نے مختصر فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائل داغے۔

امریکا اور جنوبی کوریا کی انٹیلی جنس کا یہ بھی ماننا ہے کہ شمالی کوریا نے اکتوبر میں یوکرین کے خلاف لڑنے کے لیے ہزاروں فوجی بھیجنا شروع کیے تھے، اس کے بعد سے اسے سیکڑوں ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔لیکن نہ تو شمالی کوریا اور نہ ہی روس نے سرکاری طور پر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پیانگ یانگ کی افواج ماسکو کے لیے لڑ رہی ہیں۔پیر کے روز جنوبی کوریا کے ایک قانون ساز نے سیئول کی خفیہ ایجنسی سے ملنے والی معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ میں لڑتے ہوئے شمالی کوریا کے تقریباً 300 فوجی ہلاک اور 2700 زخمی ہوئے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے