ٹرمپ کی صدارت سے قبل جرمنی اور فرانس کا معاشی بحران

69208685_1004.jpg

جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر کا عہدہ سنبھالیں گے تو یورپ کی دو اہم ترین معیشتوں میں مستحکم حکومتوں کی کمی ہو گی۔ یورپی یونین میں ترقی کے انجن کہلانے والے یہ دونوں ملک اس وقت بڑے سیاسی، اقتصادی اور مالی مسائل کا شکار ہیں۔۔ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو بطور صدر حلف اٹھائیں گے لیکن انہوں نے یہ عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی یورپی ممالک کی مصنوعات پر زیادہ محصولات عائد کرنے، یوکرین جنگ کے لیے امریکی حمایت میں کمی اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی فنڈنگ ​​کا دوبارہ جائزہ لینے کی دھمکی دے رکھی ہے۔آنے والے ہنگاموں کو دیکھتے ہوئے 27 رکنی یورپی یونین کے لیے اتحاد کا مظاہرہ کرنا اور یک آواز ہونا ہو گا۔ تاہم جب ٹرمپ اقتدار سنبھالیں گے تو جرمنی اور فرانس میں مستحکم حکومتیں نہیں ہوں گی اور یہی وجہ ہے کہ ان دونوں ملکوں کے موجودہ لیڈروں کو ٹرمپ کی پالیسیوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ بنیاد تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔یہ دونوں ممالک، جنہیں اکثر ”یورپی یونین کی ترقی کے انجن‘‘ کہا جاتا ہے، اس بلاک میں سب سے زیادہ آبادی والی معیشتیں ہیں۔

سبکدوش ہونے والے سیاستدان اور سیاسی عدم استحکام

جرمنی میں چانسلر اولاف شولس کی حکومت کو اب پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل نہیں ہے۔ یہ ملک 23 فروری کو قبل از وقت انتخابات کی تیاری کر رہا ہے۔ تازہ ترین سروے بتاتے ہیں کہ کوئی بھی پارٹی واضح اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی، جس سے انتخابات کے بعد مخلوط حکومت بنانے کے لیے مذاکرات ناگزیر ہو جائیں گے۔فرانس میں عدم استحکام اس سے بھی طویل رہنے کی توقع ہے۔ فرانسیسی آئین کے مطابق جولائی 2025 تک نئے انتخابات نہیں کرائے جا سکتے۔ تب تک، جولائی 2024 کے انتخابات کے بعد سے پیدا ہونے والی غیر واضح اکثریت باقی رہے گی۔ فرانسیسی قومی اسمبلی میں تین بڑے بلاکس ہیں، جن میں سے کسی کے پاس حکومتی اکثریت نہیں ہے۔

برلن میں فرانکو-جرمن سینٹر فار سوشل سائنسز کی محقق کلیئر ڈیمیسمی فرانس کی موجودہ سیاسی صورتحال کو ”انتہائی غیر مستحکم‘‘ قرار دیتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”پارلیمنٹ میں اکثریت نہیں ہے اور تینوں بلاک تعاون کرنے سے انکاری ہیں۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ فرانسیسی سیاست میں جرمنی کی طرح کثیر الجماعتی مخلوط حکومتیں بنانے کی کوئی روایت نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ”فرانس کا سیاسی کلچر تصادم پر مبنی ہے اور اس میں سمجھوتے کی روایت نہیں ہے، جس کی وجہ سے اکثریتی حکومت بنانا مشکل ہو جاتا ہے۔

لڑکھڑاتی ہوئی معشتیں

فرانس کا مرکزی بینک توقع کر رہا ہے کہ سن 2024 کے لیے معاشی نمو 1.1 فیصد رہے گی لیکن اس نے اندرون اور بیرون ملک ترقی کی ”بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے اپنی 2025 کی پیشن گوئی کو 0.9 فیصد تک کم کر دیا ہے۔یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی کو سن 2024 میں مسلسل دوسرے سال بھی کساد بازاری کا سامنا ہے جبکہ مرکزی بینک نے سن 2025 کے لیے 0.2 فیصد کی بجائے نہ ہونے کے برابر ترقی کی پیش گوئی کی ہے۔ بینک نے کہا کہ خطرے کا سب سے بڑا عنصر ”عالمی سطح پر بڑھتا ہوا [تجارتی] پروٹیکشن ازم‘‘ کا امکان ہے۔

تاہم جرمنی کی برآمدات سے چلنے والی معیشت کو نئے معاہدوں کے ساتھ آزاد تجارت کے فروغ سے کچھ راحت مل سکتی ہے۔ اس تناظر میں پہلا قدم دسمبر میں اٹھایا گیا، جب یورپی کمیشن اور جنوبی امریکی تجارتی بلاک نے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ اس طرح دنیا کے سب سے بڑا آزاد تجارتی زون کا قیام عمل میں لایا جائے گا، جس میں تقریباً 700 ملین افراد شامل ہوں گے۔ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدت کے آغاز پر یورپ کی دو سرکردہ اقوام کے درمیان اتحاد کا فقدان بھی ایک مسئلہ بن سکتا ہےڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدت کے آغاز پر یورپ کی دو سرکردہ اقوام کے درمیان اتحاد کا فقدان بھی ایک مسئلہ بن سکتا ہے۔

تاہم یہ غیر یقینی ہے کہ آیا اس معاہدے کی یورپی یونین کے رکن ممالک کی طرف سے توثیق کی جائے گی۔ فرانس نے پہلے ہی یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اس معاہدے کی مخالفت کرے گا۔ کلیئر ڈیمیسمی کہتی ہیں، ”جرمنی کی نسبت فرانس میں بڑے تجارتی معاہدوں کو بہت زیادہ تنقیدی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ فرانس میں ایسے معاہدوں کے حوالے سے یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ملک کا مستقبل اب اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں رہا، جو کہ سیاسی طور پر خطرناک ہے۔‘‘ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدت کے آغاز پر یورپ کی دو سرکردہ اقوام کے درمیان اتحاد کا فقدان بھی ایک مسئلہ بن سکتا ہے۔ ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت (2017–2021) کے دوران یورپی رہنما اکثر محتاط نظر آتے تھے۔ وہ غیریقینی کا شکار تھے کہ ٹرمپ کے ”غلط پالیسیوں کے اعلانات‘‘ اور ٹویٹس کا جواب کیسے دیا جائے؟

آئی این جی بینک کے چیف اکنامسٹ کارسٹن برزسکی کہتے ہیں کہ آٹھ برس پہلے کی نسبت آج یورپی بہتر طور پر تیار نظر آتے ہیں۔ ان کا یورپی رہنماؤں کو مشورہ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ٹرمپ کے بیانات پر کوئی خاص ردعمل دینے کی ضرورت نہیں ہے، ” اس کے بجائے، انہیں اپنی مقامی معیشتوں پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے، انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے اور ساختی اصلاحات پر زور دینا چاہیے۔کارسٹن برزسکی جرمنی اور فرانس کے درمیان ”قریبی پالیسی تعاون‘‘ کی وکالت بھی کرتے ہیں، ”ہم ماضی کے تجربے سے جانتے ہیں کہ اگر دو سب سے بڑی معیشتیں تعاون نہیں کرتیں اور یورپی منصوبے کو آگے نہیں بڑھاتیں، تو یورپ میں پیش رفت بہت سست ہو جائے گی۔‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے