مسلم رہنما افغان طالبان حکومت کو جائز قرار نہ دیں، ملالہ

ملالہ.jpg

اسلام آباد میں اسلامی دنیا میں لڑکیوں کی تعلیم کے موضوع پر ہفتے کے روز سے شروع ہونے والے عالمی سربراہی اجلاس کے دوسرے دن اتوار 12 جنوری کو ملالہ یوسفزئی نے اجلاس کے شرکاء سے خطاب کیا۔

ملالہ یوسفزئی کا خطاب

مسلم ورلڈ لیگ کے ایما پر اسلام آباد منعقدہ اسلامی دنیا میں لڑکیوں کی تعلیم کے موضوع پر دو روزہ کانفرنس میں مسلم اکثریتی ممالک کے وزراء اور تعیلم کے شعبے کے حکام شریک ہوئے۔ اجلاس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں 27 سالہ ملالہ یوسفزئی کا کہنا تھا، ”بطور مسلم رہنما، اب وقت آ گیا ہے کہ آپ سب آواز اٹھائیں، اپنی طاقت کا استعمال کریں۔ آپ حقیقی قیادت دکھا سکتے ہیں۔ آپ اسلام کی حقیقی شکل دکھا سکتے ہیں۔‘‘ ملالہ نے مسلم رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ افغان طالبان حکومت کو ”جائز‘‘ نہ قرار دیں اور خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم پر طالبان کی لگائی ہوئی پابندیوں کی مخالفت کرکے اپنی حقیقی قیادت کا مظاہرہ کریں۔کانفرنس کے شرکاء سے ملالہ یوسفزئی کا مزید کہنا تھا، ”سادہ لفظوں میں، طالبان خواتین کو انسان کے طور پر نہیں دیکھتے۔ وہ اپنے جرائم کو ثقافتی اور مذہبی لبادے میں ڈھانپ لیتے ہیں۔‘‘ ملالہ یوسفزئی نے افغان طالبان کے حوالے سے مزید کہا، ”ان کا مشن واضح ہے: وہ وہ عوامی زندگی کے ہر پہلو سے خواتین اور لڑکیوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور انہیں معاشرے سے مٹانا چاہتے ہیں۔‘‘

افغانستان میں ‘صنفی عصبیت‘ اور ملالہ کی مہم

ملالہ یوسف زئی کو 2012 ء میں اس وقت پاکستانی طالبان نے چہرے پر گولی ماری تھی جب وہ 15 سالہ اسکول کی طالبہ تھیں اور یہ واقعہ ان کی خواتین کی تعلیم کے حقوق کے لیے جاری مہم کے سبب پیش آیا تھا۔ ملالہ کی اپنی مہم کو آگے چلاتے رہنے کی لگن کی وجہ سے 2014 ء میں انہیں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا اور اس کے بعد سے وہ خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم کے حقوق کی عالمی وکیل بن گئی ہیں۔2021ء میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد، طالبان کی حکومت نے اسلامی قوانین کی سخت توجیحات کو نافذ کیا، جسے اقوام متحدہ نے ”جنسی امتیاز یا صنفی عصبیت‘ کا نام دیا ہے۔

طالبان کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں نے افغانستان میں خواتین اور لڑکیوں کو سیکنڈری اسکول اور یونیورسٹی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ بہت سی سرکاری ملازمتوں سے بھی محروم اور انہیں عوامی زندگی کے بہت سے پہلوؤں سے الگ تھلگ کر دیا ہے۔پاکستان کے وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی نے ہفتہ کو بتایا تھا کہ افغانستان کی طالبان حکومت کے مندوبین نے مدعو کیے جانے کے باوجود اسلام آباد منعقدہ اسلامی دنیا میں لڑکیوں کی تعلیم کے موضوع پر دو روزہ کانفرنس کی تقریب میں شرکت نہیں کی۔اسلامی دنیا میں لڑکیوں کی تعلیم کے موضوع پر ہونے والی کانفرنس میں مخنلف مکنب فکر سے تعلق رکھنے والے علما نے بھی شرکت کی اسلامی دنیا میں لڑکیوں کی تعلیم کے موضوع پر ہونے والی کانفرنس میں مخنلف مکنب فکر سے تعلق رکھنے والے علما نے بھی شرکت کی

بین الاقرامی رائے منقسم کیوں؟

اگرچہ بین الاقوامی برادری میں لڑکیوں اور خواتین پر طالبان حکومت کی پابندیوں کا موضوع زور و شور سے زیر بحث رہتا ہے لیکن اقوام اس معاملے پر کابل کے حکمرانوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے بارے میں منقسم ہیں۔ کچھ ممالک کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت کو سفارتی برادری سے اس وقت تک کے لیے الگ کر دیا جانا چاہیے جب تک کہ وہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے اپنا نکتہ نظر تبدیل نہیں کرتے، جبکہ دوسرے ممالک ان کو اپنی انتہا پسند پالیسیوں میں تبدیلی کے لیے ان کے ساتھ بات چیت کو ترجیح دیتے ہیں۔کسی بھی ملک نے باضابطہ طور پر طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا، لیکن کئی علاقائی حکومتوں نے تجارت اور سلامتی کے موضوعات پر کابل حکومت کے ساتھ بات چیت شروع کر دی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے