بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں زہریلی گیس کے بڑھتے حادثات

پاکستانی صوبہ بلوچستان میں زہریلی میتھین گیس کے غیر معمولی اخراج سے متاثرہ کوئلے کی کانوں کی تعداد سینکڑوں میں بنتی ہے۔ ماہرین کے مطابق ان کانوں میں ناکافی حفاظتی انتظامات ہزاروں کان کنوں کی جانوں کے لیے مسلسل خطرہ ہیں۔رواں ماہ کی چھ تاریخ کو کوئٹہ کے قریب سنجدی کے علاقے میں بھی ایک کان میں میتھین گیس کے ایک دھماکے کے باعث 12 کان کن ہلاک ہو گئے تھے۔ ہلاک شدگان کی لاشیں ریسکیو کارکنوں نے چار ہزار فٹ سے زائد کی گہرائی سے نکالی تھیں۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں گزشتہ برس جنوری سے لے کر اب تک کوئلے کی مختلف کانوں میں پیش آنے والے 52 مہلک حادثات میں کم از کم 92 کان کن ہلاک ہوچکے ہیں۔ان کانوں میں ہزاروں ایسے افراد بھی کام کرتے ہیں، جن کا تعلق ہمسایہ ملک افغانستان کے علاوہ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے علاقوں شانگلہ، سوات، مالاکنڈ، دیر اور درہ آدم خیل جیسے علاقوں سے ہوتا ہے۔
کوئلے کی کانوں میں حفاظتی انتظامات کے لیے حکومت کیا کر رہی ہے؟
بلوچستان کے چیف انسپکٹر مائنز عبدالغنی شاہوانی کہتے ہیں کہ کوئلے کی نجی کانوں میں بہتر حفاظتی انتظامات کو یقینی بنانے کے لیے حکومت نے اب ایک خصوصی حکمت عملی پر کام شروع کر دیا ہے۔رہورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے عبدالغنی شاہوانی نے کہا، ”بلوچستان میں اکثر نجی کمپنیوں کی طرف سے کوئلے کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی حفاظت کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جاتے۔ کان مالکان زیادہ منافع کے لیے حفاظتی انتظامات پر توجہ نہیں دیتے۔‘‘صوبے کے چیف انسپکٹر مائنز نے بتایا، ”بلوچستان میں کوئلے کی بیشتر کانیں ایسی ہیں، جن میں ہنگامی حالات میں کارکنوں کے لیے انخلا کے راستوں، آکسیجن سپلائی اور فوری طبی امداد کی بنیادی سہولیات تک دستیاب نہیں۔ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی میں ملوث ایسی کانوں کے مالکان کے خلاف ضابطے کی کارروائی اب بھی تسلسل کے ساتھ کی جاتی ہے، تاہم اب حکومت ایک ایسا نیا قانون لا رہی ہے، جس کے نفاذ سے ایسی کانوں کے مالکان کے خلاف فوری کارروائی ممکن ہوسکے گی۔
عبدالغنی شاہوانی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی چار ہزار سے زائد کوئلے کی کانوں میں مجموعی طور پر 82 ہزار کے قریب کان کن کام کرتے ہیں۔
انہوں نےرپورٹر کو بتایا، ”یہاں کوئلے کی کان کنی کے لیے 132 کمپنیوں نے اپنی رجسٹریشن کروا رکھی ہے۔ کچھ لوگ انفرادی طور پر بھی یہ کام کرتے ہیں۔کوئلے کی کانوں میں لازمی حفاظتی انتظامات کو نظر انداز کرنے والے مالکان کے خلاف گزشتہ برس 90 سے زائد مقدمات درج کیے گئے تھے۔ قانونی پیچیدگیوں کے باعث بعض مقدمات میں نامزد کردہ ملزمان بری بھی ہو گئے تاہم ہماری طرف سے یہ کارروائیاں مسلسل جاری رہتی ہیں۔صوبائی چیف انسپکٹر مائنز کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں کوئلے کی سالانہ پیدوار 30 سے 40 لاکھ ٹن کے قریب ہے تاہم گزشتہ سال یہ مجموعی پیداوار صرف 29 لاکھ ٹن رہی۔
ملک میں محفوظ کان کنی کے ضوابط نظر انداز کیوں؟
پاکستان میں کان کنوں کی نمائندہ تنظیم کے رہنما احسان اللہ مومند کہتے ہیں کہ ملک میں قوانین کی کوئی کمی نہیں، اصل مسئلہ ان قوانین پر عمل درآمد کا ہے۔رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے احسان اللہ مومند نے کہا، ”بلوچستان میں کان کنی کی صنعت مائن ورکرز پر حملوں اور قطعی غیر یقینی صورتحال سے شدید متاثر ہو رہی ہے۔ گزشتہ برس ہونے والے حملوں سے دکی، شاہرگ، ہرنائی اور دیگر علاقوں سے بڑے پیمانے پر غیر مقامی مزدور کام چھوڑ کر چلے گئے۔ سکیورٹی خدشات کے باعث صوبے میں کان کن اب خود کو بہت غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں۔احسان اللہ مومند کا کہنا تھا کہ کوئلے کی کانوں میں اکثر مزدور بنیادی حفاظتی انتظامات کے بغیر کام کرتے ہیں اور انہیں کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی بھی کوئی تربیت نہیں دی جاتی۔مومند کے بقول، ”بلوچستان میں کوئلے کی سب سے زیادہ پیداوار دکی کے علاقے میں ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کوئٹہ، شاہرگ، ہرنائی، مچھ اور دیگر علاقوں سے نکالے جانے والے کوئلے کی پیداوار میں بتدریج کمی اس لیے ہو رہی ہے کہ وہاں حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ حکومت ان مائنز میں دستیاب حفاظتی انتظامات کی کوئی باقاعدہ مانیٹرنگ نہیں کرتی۔ لیکن جب کوئی حادثہ پیش آتا ہے، تو حکومتی ادارے فوراﹰ حرکت میں آ جاتے ہیں۔‘‘
کان کنی کی صنعت کو درپیش بحرانوں کی بنیادی وجوہات
اسلام آباد میں مقیم ماہر ارضیات نور رحمٰن کہتے ہیں کہ پاکستان میں کوئلے کی کانوں میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی انتہائی بوسیدہ ہے اور ملک میں کوئلے کی 85 فیصد سے زائد کانوں میں کان کنی آج بھی روایتی طریقوں سے کی جا رہی ہے۔رپورٹر سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”کوئلے کی کان کنی کی صنعت ہمارے ہاں ہمیشہ بحرانوں سے دوچار رہی ہے۔ اس صورتحال کے بنیادی عوامل میں ناکامی حفاظتی اقدامات، جدید تکنیکی آلات کی کمی اور حکومتی سطح پر مؤثر ریگولیشن کی عدم دستیابی شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں اور خاص کر بلوچستان میں کوئلے کی کانوں میں جان لیوا حادثات اور ان کے نقصان دہ اثرات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
نور رحمٰن کا کہنا تھا کہ کان کنی کے شعبے کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کے لیے مرکزی سطح پر مؤثر اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔انہوں نے کہا، ”پاکستان میں کوئلے کی کانوں میں حفاظتی انتظامات کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے کے لیے کم از کم بھی 50 بلین روپے سے لے کر 60 بلین روپے تک کی خطیر رقم درکار ہے۔ کوئلے کی صنعت توانائی کی ملکی ضروریات پورا کرنے میں اہم کردارادا کر رہی ہے۔ اس شعبے میں دور حاضرکے تقاضوں کے مطابق بڑی سرمایہ کاری کی فوری ضرورت ہے۔‘‘ماہرین نے واضح کیا ہے کہ پاکستان میں اگر مائنز ایکٹ 1923 اور مائنز رولز 2004 پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے، تو ملک میں کوئلے کی کان کنی کی صنعت کو درپیش بہت سے سنگین مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔