فرانس کی جانب سے دہشت گردوں کے اجلاس کی میزبانی قابل مذمت ہے، ترجمان وزارت خارجہ

483829.jpg

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے فرانس کی جانب سے دہشت گرد گروہ ایم کے او کے اجلاس کی میزبانی کو دہشت گردی کی حمایت کی واضح مثال قرار دیا ہے۔وزارت خارجہ کے ترجمان اسما‏عیل بقائی نے ہفتے کی شب اپنے ایک بیان میں ایم کے او کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے ریکارڈ کاحوالہ دیتے ہوئے کہا کہ فرانس میں اس گروہ کے عناصر کی موجودگی اور انہیں آزادانہ سرگرمیوں کی اجازت دینا انسداد دہشت گردی کے عالمی قوانین اور ضابطوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ فرانس کا یہ اقدام نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق بین الاقوامی کنونشنوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1373 کے منافی ہے بلکہ "اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ریاستوں کے درمیان دوستانہ تعلقات اور تعاون کے بنیادی اصولوں اور قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔

ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان کے بیان میں یہ بات زور دے کر کہی گئي ہے کہ دہشت گردی کے بارے میں نرم رویہ اختیار کرنا اور سیلکٹیو اپروچ اپنانا ایسا خلاف قانون عمل ہے جو بین الاقوامی ضابطوں کے تحت فرانس کی ذمہ داریوں میں اضافہ کرتا ہے اور اخلاقی اور انسانی لحاظ سے بھی ایک قابل مذمت فعل ہے جسے ہرگز قبول نہیں کیا جاسکتا۔اسماعیل بقائي نے مزید کہا کہ ایک دہشت گرد گروہ کو اجلاس منعقد کرنے کی اجازت دینا در اصل تشدد بھڑکانے، نفرت پھیلانے اور ایران کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی بھی واضح مثال ہے۔انہوں نے یہ بات زور دے کرکہی کہ فرانسیسی حکومت کی جانب سے اس طرح کا رویہ انسانی حقوق کی اساس اور بنیادی عالمی قوانین اور ضابطوں کے منافی اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے ساتھ متصادم ہے۔

اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے دنیا کے تمام ملکوں کی جانب سے دہشت گردی کی روک تھام کےحوالے سے اپنی بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں پر عمل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گردوں کو پھر سے منظم کرنے اور ان کی مالی اعانت سے گریز کیا جائے۔انہوں نے حکومت فرانس پر زور دیا کہ وہ انسداد دہشت گردی کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔