امریکہ کے لاس اینجلس میں "غزہ” جیسے مناظر
لاس اینجلس: امریکہ کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاس اینجلس میں جنگلاتی آگ نے بڑے پیمانے پر تباہی مچا رکھی ہے۔ اس آگ نے ایک بڑے رہائشی علاقے کو اپنی زد لے کر راکھ اور کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ لاس اینجلس کے پیسیفک پیلیسیڈ کے علاقے میں اس آتشزدگی سے ہونے والی تباہی غزہ اور ہیروشیما جیسے منظر پیش کر رہی ہے۔ لاس اینجلس کے کاؤنٹی شیرف رابرٹ لونا نے صورت حال کی منظر کشی کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے جیسے یہاں ایٹم بم گرا ہو۔کیلیفورنیا کی تاریخ میں اب تک کی سب سے بڑی آگ نے پیسیفک پیلیسیڈز کے تقریباً 20,000 ایکڑ (8,800 ہیکٹر) رقبے کو خاکستر کر دیا،
جب کہ الٹاڈینا کے آس پاس ایک اور آگ نے 13,700 ایکڑ رقبے کو اپنی زد میں لے لیا ہے۔ یہ آگ ابتدائی چند گھنٹوں کے اندر ہی تقریباً 1,000 ایکڑ تک پھیل گئی، جس سے بڑے پیمانے پر لوگوں کو ان کے گھروں سے نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا۔ اب تک 180,000 سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، تقریباً 12 ہزار مکان اور عمارتیں راکھ کا ڈھیر بن چکی ہیں، نیز اس آگ سے اب تک کم از کم 10 ہلاکتوں کی تصدیق ہو چکی ہے۔اس دوران آگ بجھانے کے لیے ایک وسیع آپریشن جاری ہے، جس میں ہیلی کاپٹروں کی بھی مدد لی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ جیل کے قیدیوں کو بھی آگ بجھانے کے آپریشن میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ فائر فائٹرز نے کہا کہ وہ پیسیفک پیلیسیڈز کی آگ پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن وقفے وقفے سے ہواؤں کے پلٹ آنے کی وجہ سے نئی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ بہرحال اب ہوا کی رفتار کم ہونے لگی ہے اور اس کی وجہ وجہ سے اب تک آگ پر 50 فیصد تک قابو پایا جا چکا ہے۔
اس تباہی نے لاس اینجلس میں معمولات زندگی کو درہم برہم کردیا۔ علاقے میں 100 میل (160 کلومیٹر) فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں نے آگ بجھانے کے آپریشن میں لگے طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی پرواز کو بھی مشکل بنا دیا۔امریکی صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں بریفنگ میں بتایا کہ انہوں نے ریاست کو کیلیفورنیا کی تاریخ کی سب سے تباہ کن آگ سے نمٹنے میں مدد کے لیے اضافی وفاقی فنڈز اور وسائل دینے کا وعدہ کیا ہے۔اس دوران خالی کیے گئے گھروں میں متعدد مقامات پر لوٹ مار کی بھی اطلاعات ہیں۔ لاس اینجلس کاؤنٹی کے شیرف رابرٹ لونا نے کہا کہ ہم آنے والے دنوں میں کمیونٹیز کی حفاظت کے لیے وہ سب کچھ کریں گے جو ضرری ہے اور ان لوگوں کے لیے واضح کر دیں کہ لوٹ مار برداشت نہیں کی جائے گی، جو انخلا سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔”