گرین لینڈ کیا ہے اور امریکہ کے لیے اہم کیوں ہے؟

news-1736334636-7903.jpg

ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گرین لینڈ حاصل کرنے کی خواہش نے، دنیا کے اس سب سے بڑے جزیرے کو میڈیا اور عالمی سیاست کا ایک اہم موضوع بنا دیا ہے۔ امریکہ گرین لینڈ کو اسٹریٹیجک لحاظ سے اپنے لیے بہت اہم سمجھتا ہے۔ٹرمپ نے گزشتہ ماہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ’ دنیا بھر میں قومی سلامتی اور آزادی کے مقاصد کے لیے امریکہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اسے گرین لینڈ کی ملکیت اور کنٹرول کی بہت ضرورت ہے۔ٹرمپ اس سے قبل بھی گرین لینڈ کے حصول کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے رہے ہیں اور انہوں نے 2019 میں اپنی پہلی صدارتی مدت میں بھی اپنا یہ نظریہ پیش کیا تھا۔

یورپ کی مخالفت

گرین لینڈ اور ڈنمارک دونوں ہی ٹرمپ کی اس تجویز کو مسترد چکے ہیں۔ گرین لینڈ ڈنمارک کی دولت مشترکہ کا ایک حصہ ہے۔اب حال ہی میں گرین لینڈ کے بارے میں ٹرمپ کے بیان پر فرانس اور جرمنی نے اپنے ردعمل میں اس کی مخالفت کی ہے۔جرمن چانسلر اولاف شولز نے کہا ہے کہ سرحدوں کے ناقابل تسخیر ہونے کا اصول ہر ملک پر لاگو ہوتا ہے، چاہے وہ چھوٹا ملک ہو یا بہت بڑی طاقت۔فرانسیسی وزیر خارجہ جین نوئل بیروٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ یورپی یونین دنیا کی دیگر اقوام کو اپنی خود مختار سرحدوں پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔آیئے یہ جائزہ لیتے ہیں کہ گرین لینڈ کی اہمیت کیا ہے اور امریکہ کو اس میں دلچسپی کیوں ہے؟

گرین لینڈکیا ہے؟

گرین لینڈ، بحر اقیانوس اور آرکٹک اوقیانوس کے درمیان واقع دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ ہے جو ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن کی نسبت نیویارک سے زیادہ قریب ہے۔اس جزیرے پر 14 ویں صدی سے ڈنمارک کا کنٹرول ہے، تاہم 1979 میں گرین لینڈ کو ایک خودمختار علاقے کی حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔ اس کا اپنا وزیراعظم اور اپنی حکومت ہے، لیکن وہ ڈنمارک کی دولت مشترکہ کا حصہ ہے جو اس کی مالی ضروریات کا ایک بڑا حصہ برداشت کرتا ہے۔گرین لینڈ میں امریکی فضائیہ کا ایک بڑا اڈا قائم ہے اور اس جزیرے کی برف پوش تہوں کے نیچے قیمتی معدنیات کے خزانے موجود ہیں، جن میں یورینیم اور بڑی مقدار میں تیل اور قدرتی گیس شامل ہیں۔گرین لینڈ کا رقبہ 21 لاکھ 66 ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے۔ آبادی 57 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ زیادہ تر لوگ ماہی گیری سے وابستہ ہیں۔ جزیرے میں گرین لینڈ کی مقامی زبان کے ساتھ ساتھ ڈینش اور انگریزی بھی بولی جاتی ہے۔ ملک کے سربراہ ڈنمارک کے کنگ فریڈرک ہیں جب کہ موٹ بوروپ ایگیڈ وزیراعظم ہیں۔

گرین لینڈ اور آب و ہوا کی تبدیلی

گرین لینڈ میں ہر سال دو مہینے ایسے بھی آتے ہیں جب سورج لگاتار چمکتا رہتا ہے اور غروب ہی نہیں ہوتا۔جزیرے کے 80 فی صد سے زیادہ حصے پر برف کی چار کلو میٹر سے زیادہ موٹی تہہ ہے جو آب و ہوا کی تبدیلی کے باعث تیزی سے پگھل رہی ہے۔نیو یارک یونیورسٹی میں آب و ہوا کے سائنس دان ڈیوڈ ہالینڈ کہتے ہیں کہ گرین لینڈ ایک ایسے خطے میں ہے جو باقی دنیا کے مقابلے میں چار گنا زیادہ تیزی سے گرم ہو رہا ہے۔ہالینڈ کا مزید کہنا تھا کہ گرین لینڈ میں صرف برف ہی نہیں پگھل رہی بلکہ اس کا رنگ روپ بھی تبدیل ہو رہا ہے اور وہ میلوں تک پھیلی ہوئی برف کی سفید چادر کی بجائے کہیں پر نیلا(پانی کا رنگ) اور کہیں سبز (نباتات کی رنگت ) ہو رہا ہے۔اس کا اثر دنیا بھر کے موسموں پر بھی پڑ رہا ہے۔ کیونکہ برف کی سفیدی سورج کی کرنوں کی روشنی اور حرارت کو پلٹ دیتی ہے جب کہ نیلا اور سبز رنگ اسے جذب کر لیتا ہے۔

اروائن میں قائم یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں آب و ہوا سے متعلق سائنس دان ایرک ریگنوٹ کا کہنا ہے کہ گرین لینڈ کی برف پگھلنے سے پوری دنیا کے ساحلی علاقوں کی شکل تبدیل ہو جائے گی۔ کیونکہ وہاں اتنی برف ہے جو دنیا بھر کے سمندروں کی سطح کو 24 فٹ تک بلند کر سکتی ہے۔کولوراڈو میں قائم نیشنل سنو اینڈ آئس ڈیٹا سینٹر کے ڈائریکٹر مارک سیریز کہتے ہیں کہ موجودہ صدی میں گرین لینڈ توجہ کا اہم مرکز رہے گا کیونکہ وہاں پگھلنے والی برف کا اثر سمندروں کی سطح پر پڑے گا۔انہوں نے بتایا کہ 1992 کے بعد سے گرین لینڈ میں ہر سال 182 ارب میٹرک ٹن برف پگھل رہی ہے۔

گرین لینڈ کی امریکہ کے لیے اہمیت

گرین لینڈ کا وسیع و عریض جزیرہ امریکہ، روس اور یورپ کے درمیان آرکٹک دائرے میں پھیلا ہوا ہے جو اس علاقے کی اسٹرٹیجک اہمیت کو بڑھا دیتا ہے۔ امریکہ اور کئی دوسرے ملک 150 سال سے زیادہ عرصے سے اس پر نظریں جمائے ہوئے ہیں۔آب و ہوا کی تبدیلی کے باعث جیسے جیسے برف پگھل رہی ہے، اور آرکٹک کے علاقے میں جہاز رانی کا دائرہ بڑھ رہا ہے۔ اقتصادی پہلو سے بھی اس کی اہمیت بڑھ رہی ہے، کیونکہ قدیم چٹانیں ظاہر ہونے کے بعد، کان کنی سے نئی صنعتیں اور نئے کاروبار قائم ہوں گے اور تجارت کو پھلنے پھولنے کے مواقع میسر آئیں گے۔

مستقبل کا گرین لینڈ

ڈیوڈ ہالینڈ 2007 سے گرین لینڈ کی برف پر تحقیق کر رہے ہیں اور وہ 30 سے زیادہ بار وہاں کے سائنسی دورے کر چکے ہیں۔ وہ مستقبل کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں اسے بہت خوبصورت دیکھ رہا ہوں۔ وہاں آنکھوں کو خیرہ کرنے والے مناظر ظاہر ہونے کو ہیں۔ پانی میں امپائر اسٹیٹ بلڈنگ سائز کے تیرتے اور چٹانوں سے ٹکراتے ہوئے برف کے ٹکڑے، خوبصورت جنگلی حیات، پانیوں میں تیرتی ہوئی سیل اور وہیلز، انتہائی خوبصورت، دلکش اور حیران کن نظارے دیکھنے میں آئیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔