زرعی اصلاحات: 68 سالہ کسان لیڈر کا بھوک ہڑتال کے 44 ویں دن بھی ہسپتال جانے سے انکار
شمالی انڈیا میں بھوک ہڑتال کرنے والے ایک معمر کسان، جو کینسر کے مریض بھی ہیں، کی صحت منگل کو مزید بگڑ گئی کیونکہ انہوں نے نریندر مودی حکومت کی جانب سے احتجاج ختم کرنے کی اپیل مسترد کر دی۔پنجاب کے علاقہ کھنوری میں عارضی کیمپ میں تقریباً ڈیڑھ ماہ سے بھوک ہڑتال کرنے والے 68 سالہ جگجیت سنگھ دلیوال کو ڈاکٹروں نے مشورہ دیا ہے کہ وہ آئی سی یو میں داخل ہو جائیں، کیونکہ ہفتے کو وہ کسان مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے بے ہوش ہو گئے تھے۔دلیوال شمالی انڈیا میں زرعی اصلاحات اور منصفانہ قیمتوں کے مطالبے کے لیے شروع ہونے والے حالیہ احتجاج کی ایک نمایاں شخصیت ہیں۔2020-21 کے پہلے احتجاج میں، ہزاروں کسان دہلی کی سرحد پر تقریباً ایک سال تک ڈٹے رہے، جس کے نتیجے میں مودی حکومت کو متنازع زرعی قوانین واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ابھیمنیو کوہار، ایک نوجوان کسان رہنما جو دلیوال کی صحت کی صورت حال کی نگرانی کر رہے ہیں، نے کہا: ’ان کی حالت انتہائی تشویش ناک ہے۔ ڈاکٹروں نے انہیں ہسپتال منتقل کرنے کی درخواست کی ہے لیکن انہوں نے طبی مدد لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ زرعی اصلاحات ان کے جسم اور زندگی سے زیادہ اہم ہیں۔
دلیوال، جو 40 سے زائد کسان تنظیموں کے اتحاد سَنگیوکت کسان مورچہ کے رہنما ہیں، نے اپنی جائیداد قانونی طور پر اپنے خاندان کے نام منتقل کر دی ہے اور کہا ہے کہ اگر حکومت ان کے مطالبات پورے نہ کرے تو وہ مرنے کے لیے تیار ہیں۔کوہار نے کہا: ’وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل نہیں ہیں، ان کا بلڈ پریشر 75/45 پر ہے۔ ہم مسلسل ان کے پاؤں رگڑ رہے ہیں اور ان کا دوران خون برقرار رکھنے کے لیے ان کی ٹانگیں مسلسل اوپر کی جانب کر رکھی ہیں۔دلیوال کو چار سال پہلے پروسٹیٹ کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔مظاہرین کے 13 مطالبات میں سے کچھ کا ذکر کرتے ہوئے کوہار نے مزید کہا: ’دلیوال نے متعدد بار مودی سے اپیل کی ہے کہ وہ کسانوں کے مطالبات پر غور کریں، جن میں کم از کم امدادی قیمت پر قانون سازی، قرض معافی، خودکشی کرنے والے کسانوں کے خاندانوں کے لیے معاوضہ، اور 2020 سے جاری احتجاج کے دوران مرنے والے کسانوں کے اہل خانہ کے لیے امداد شامل ہیں۔کسان کم از کم امدادی قیمت پر ضمانت کا مطالبہ کر رہے ہیں جو مرکزی حکومت کی جانب سے مختلف فصلوں کی خریداری کے لیے مقرر کردہ ایک معیار ہے۔ اگرچہ یہ کئی فصلوں کے لیے پہلے سے نافذ ہے، لیکن کسان اسے مزید وسیع کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
2021 میں کسانوں کے پہلے احتجاج کے خاتمے کے لیے تین متنازع قوانین واپس لینے کے بعد، مودی حکومت نے دیگر مطالبات پر غور کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن کسان رہنما الزام لگاتے ہیں کہ حکومت نے وعدے پورے نہیں کیے، جس کے باعث انہیں 2024 کے آخر میں دوبارہ احتجاج پر اترنا پڑا۔کسانوں نے دہلی کی جانب مارچ کیا لیکن انہیں دارالحکومت کے باہر روک دیا گیا، جس کے بعد انہوں نے دہلی کو پنجاب سے جوڑنے والی قومی شاہراہوں پر عارضی کیمپ قائم کر لیے۔دسمبر میں، دلیوال نے وزیراعظم کو ایک کھلا خط لکھا، جس میں انہوں نے دلیل دی کہ کم از کم فصلوں کی قیمت کسانوں کے لیے جینے کے حق کے برابر ہے۔انہوں نے لکھا: ’کسانوں کی اموات کو روکنے کے لیے، میں نے اپنی جان قربان کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘ اور حکومت پر اس معاملے پر توجہ دینے کے لیے دباؤ ڈالا۔
کوہار نے کہا: ’انڈین وزیر اعظم کے پاس اداکاروں، کھلاڑیوں سے ملنے اور ارب پتیوں کی شادیوں میں شرکت کا وقت ہے، لیکن ان کسانوں سے ملنے کا وقت نہیں جو ملک کو کھلانے کے لیے کم از کم امدادی قیمت کے لیے لڑ رہے ہیں۔دلیوال کی بگڑتی ہوئی صحت کے پیش نظر، سپریم کورٹ نے پیر کو ریٹائرڈ جج نواب سنگھ کی سربراہی میں ایک کمیٹی کو ان سے ملاقات کے لیے بھیجا۔سنگھ نے کہا کہ عدالت دلیوال کی حالت پر فکرمند ہے اور ان کی صحت کو یقینی بنانے کے لیے احکامات دے رہی ہے۔دلیوال نے جواب دیا: 42 دن گزر چکے ہیں۔ مجھے کچھ نہیں ہوگا، میرے ساتھ خدا ہے۔ لیکن اگر حکومت کر سکتی ہے تو کسانوں پر کچھ رحم کرے۔اگر حکومت ہمارے مطالبات پورے کرے تو مجھے بھوک ہڑتال کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، اور میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس مسئلے کو حکومت کے ساتھ اٹھائیں تاکہ اسے حل کیا جا سکے۔