امریکا میں امیگریشن پالیسی اور پاکستانیوں کی تشویش
امریکا میں 2024 کے انتخابات کے بعد امیگریشن پالیسی کے بارے میں بحث مرکزی حیثیت اختیار کر چکی ، جس کی وجہ سے تارکین وطن کی برادریوں، بالخصوص پاکستانی امریکیوں میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے۔رپورٹ کے مطابق نیو اورلینز میں ’دہشت گردی‘ کے واقعے میں 15 افراد کی ہلاکت کے بعد اس مسئلے نے ایک بار پھر زور پکڑ لیا ہے۔نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر متعدد پوسٹس میں اس قتل عام کو ’مجرموں کے آنے‘ سے جوڑا اور ’بنیاد پرست اسلامی دہشت گردی‘ اور امیگریشن کے درمیان تعلق کی نشاندہی کی۔ان بیانات نے تارکین وطن برادریوں، خاص طور پر پاکستانی امریکیوں میں تشویش میں اضافہ کر دیا ہے، جنہیں امریکی مسلم آبادی میں ان کی نمایاں موجودگی کی وجہ سے جانچ پڑتال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق امریکا میں پہلی نسل کے مسلمان تارکین وطن میں پاکستانی مسلمانوں کی تعداد 14 فیصد ہے، جس کی وجہ سے وہ مسلمانوں میں سب سے بڑا نسلی گروہ ہیں، نتیجتاً امریکی امیگریشن پالیسیوں میں کسی بھی تبدیلی سے وہ کسی بھی دوسرے مسلمان تارکین وطن گروپ کے مقابلے میں زیادہ نمایاں طور پر متاثر ہوں گے۔مشی گن اسٹیٹ یونیورسٹی میں پاکستانی نژاد ماہر نفسیات ڈاکٹر فرح عباسی نے تارکین وطن میں بڑھتے ہوئے ذہنی صحت کے بحران کے بارے میں خبردار کیا ہے، ’پلانٹ ڈیٹرائٹ‘ کے لیے لکھتے ہوئے ڈاکٹر عباسی نے کہا کہ غیر یقینی مستقبل کا خوف مسلم برادریوں میں اضطراب اور ڈپریشن میں اضافہ کر رہا ہے۔انہوں نے متنبہ کیا کہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے مقابلے میں امریکی مسلمانوں میں خودکشی کی کوشش کرنے کے امکانات دگنے ہیں، غیر قانونی تارکین وطن خاص طور پر ٹرمپ کی جانب سے بڑے پیمانے پر ملک بدری کے مطالبے کا شکار ہیں۔
پاکستانی امریکیوں کے لیے یہ خطرہ خاص طور پر بہت زیادہ ہے، بہت سے لوگ ایچ -1 بی ویزا جیسے پروگراموں پر انحصار کرتے ہیں، جو ہنر مند کارکنوں کو پیشہ ورانہ مواقع فراہم کرتا ہے، اگرچہ بھارتی پیشہ ور افراد اس زمرے میں حاوی ہیں، لیکن پاکستانی امریکی بھی اس پروگرام سے نمایاں طور پر فائدہ اٹھاتے ہیں، ویزا پالیسیوں میں تبدیلیوں کے اثرات مرتب ہوسکتے ہیں، جس سے اس کمیونٹی میں معاش اور پیشہ ورانہ نقل و حرکت دونوں متاثر ہوسکتے ہیں۔امریکی جامعات میں زیر تعلیم کچھ پاکستانی طالب علموں کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ 20 جنوری سے قبل کیمپس میں واپس آ جائیں، جب ٹرمپ کی نئی انتظامیہ اقتدار سنبھالے گی، بہت سے دوسرے لوگوں نے موسم سرما کی تعطیلات کے دوران اپنے گھروں کے سفر کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا، کیوں کہ انہیں ڈر تھا کہ انہیں امریکا واپس آنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایچ 1 بی ویزا اور انٹرنل ڈویژن
امیگریشن طویل عرصے سے امریکی سیاست میں ایک متنازع مسئلہ رہا ہے، لیکن پناہ، سرحدی کنٹرول اور ملک بدری کے بارے میں ٹرمپ کے سخت موقف نے اس بحث کو مزید ’پولرائز‘ بنا دیا ہے۔
حال ہی میں ایک نئی جہت اس وقت سامنے آئی جب ٹرمپ نے ایلون مسک کے ایچ ون بی ویزا پروگرام کو وسعت دینے کے مطالبے کے ساتھ خود کو جوڑ لیا، جس کا مقصد ہنر مند غیر ملکی کارکنوں کو راغب کرنا ہے، اس موقف نے ان کے حامیوں کو تقسیم کر دیا ہے، اسٹیو بینن جیسی شخصیات امیگریشن پروگراموں میں توسیع کی مخالفت کر رہی ہیں۔اسٹیو بینن نے اپنے ’وار روم پوڈ کاسٹ‘ میں ایچ ون بی ویزا کا مذاق اڑاتے ہوئے اسے ’دھوکا دہی‘ قرار دیا اور دلیل دی کہ امریکی ملازمتیں امریکا میں پیدا ہونے والے کارکنوں کو ملنی چاہئیں۔تاہم ورجینیا کے گورنر گلین ینگکن کے ایشین ایڈوائزری بورڈ کے رکن مسک اور منصور قریشی جیسے حامیوں کا کہنا ہے کہ ایچ ون بی ورکرز آئی ٹی اور انجینئرنگ جیسے شعبوں میں اہم خلا کو پر کرتے ہیں اور امریکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، منصور قریشی نے ان پیشہ ور افراد کی معاشی شراکت پر زور دیتے ہوئے متنبہ کیا کہ اس پروگرام کو محدود کرنے سے کمپنیاں ملازمتوں کو بیرون ملک منتقل کرنے پر مجبور ہوسکتی ہیں۔
امیگریشن کے نفاذ پر اثرات
امیگریشن کی وسیع تر بحث نے جلاوطنی کے بارے میں بحث کو بھی جنم دیا ہے، نیشنل امیگرنٹ جسٹس سینٹر (این آئی جے سی) نے متنبہ کیا ہے کہ آنے والی انتظامیہ تارکین وطن کو ہٹانے کے پروگرام کو تیز تر کر سکتی ہے، جس سے امیگریشن افسران کو مناسب طریقہ کار کے بغیر افراد کو ملک بدر کرنے کی اجازت مل سکتی ہے، یہ پالیسی غیر متناسب طور پر غیر قانونی تارکین وطن کو متاثر کرتی ہے، جن میں سے بہت سے شہری مراکز میں رہتے ہیں اور مقامی معیشتوں کا لازمی حصہ ہیں۔پاکستانی نژاد امریکیوں کو خدشہ ہے کہ ان اقدامات سے نفرت پر مبنی جرائم اور ٹارگٹڈ تشدد میں اضافہ ہو سکتا ہے، جس کا اظہار ورجینیا کے اسپرنگ فیلڈ میں ایک حالیہ اجتماع میں کیا گیا تھا، بزنس کنسلٹنٹ فیض رحمان نے کہا کہ ہم پاکستانی بھی نقشے پر ہیں، امیگریشن پالیسی میں کسی بھی تبدیلی کا اثر ہم پر بھی پڑے گا۔
ایک پیچیدہ بحث
اگرچہ امیگریشن کے بارے میں ٹرمپ کا نقطہ نظر ان کی سیاسی شناخت کا مرکز بنا ہوا ہے، لیکن اسے سیاسی اور عملی دونوں چیلنجز کا سامنا ہے۔امریکی حکومت کا اندازہ ہے کہ 2022 میں غیر دستاویزی تارکین وطن کی تعداد ایک کروڑ 10 لاکھ رہی ہوگی جبکہ کسٹمز اینڈ بارڈر پروٹیکشن نے 2023 میں جنوبی سرحد پر ریکارڈ 25 لاکھ تارکین وطن کے خدشات ظاہر کیے۔اس کے باوجود قانونی امیگریشن مضبوط ہے، 2022 میں 10 لاکھ سے زائد گرین کارڈ جاری کیے گئے اور 40 لاکھ درخواست دہندگان اب بھی فیملی اور آجر سے متعلق ویزوں کے منتظر ہیں۔پالیسی ساز اس بارے میں منقسم ہیں کہ معاشی ضروریات، سلامتی کے خدشات اور انسانی ذمہ داریوں کو کس طرح متوازن کیا جائے۔منصور قریشی جیسے وکیلوں کا کہنا ہے کہ امیگریشن پر قابو پانے کے بجائے امریکا کو غیر ملکی کارکنوں پر انحصار کم کرنے کے لیے ملکی تعلیم اور تربیت کو بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے، انہوں نے کہا کہ بڑی کمپنیاں غیر ملکی کارکنوں کو بھرتی کرتی ہیں، کیوں کہ ہمارے اسکول ہمیشہ وہ ہنر نہیں سکھاتے جن کی انہیں ضرورت ہوتی ہے۔
تبدیلی کے لیے تیاری
بے یقینی کے پیش نظر این آئی جے سی جیسی تنظیمیں تارکین وطن خاندانوں پر زور دے رہی ہیں کہ وہ ممکنہ رکاوٹوں سے نمٹنے کے لیے تیار رہیں، خاندانوں کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ ہنگامی منصوبے بنائیں، ضروری دستاویزات محفوظ کریں، اور امیگریشن حکام کے ساتھ مقابلوں کے دوران اپنے حقوق سے واقف ہوں۔پاکستانی امریکیوں کے لیے یہ پیش رفت محتاط رہنے اور فعال وکالت کی ضرورت پر زور دیتی ہے، امریکی افرادی قوت میں ان کی نمایاں نمائندگی اور مقامی برادریوں میں گہرے انضمام کے ساتھ، امیگریشن پالیسی میں کسی بھی تبدیلی کے دور رس نتائج ہوسکتے ہیں، جوں جوں سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے، پاکستانی امریکی آگے کے ایک مشکل راستے کی تیاری کر رہے ہیں۔