کرغیز خانہ بدوش ” چترال سے ترکی ” کیسے پہنچے

WhatsApp-Image-2025-01-01-at-11.54.41-AM-350x222.jpeg

وسطی ایشیاء کا وسیع و عریض پہاڑی علاقہ صدیوں سے کرغیز خانہ بدوشوں کا مسکن رہا ہے۔ یہ لوگ مناسب موسم اور چراگاہوں کی تلاش میں اپنے جانوروں کے ساتھ پورا سال سفر کرتے تھے لیکن جدید دور میں قومی ریاستوں کے قیام، ان ریاستوں کے درمیان سرحدوں کے تعین اور سیاسی انقلابات نے ان کی بودوباش اور روایتی طرز زندگی کو شدید متاثر کیا۔ ان واقعات میں سب سے زیادہ اہم 1917 کا روس میں آنے والا انقلاب تھا جس نے ایک سلسلہ وار انتشار کو جنم دیا اور کرغیز خانہ بدوشوں کو اپنے لیے نیا مسکن تلاش کرنے پر مجبور کر دیا۔1917 کا کمیونسٹ انقلاب اور اس کے بعد سوویت یونین کا قیام وسطی ایشیاء میں زبردست تبدیلیوں کا سبب بنا۔ سوویت روس نے کرغیز خانہ بدوشوں کی زمینوں پر قبضہ کیا اور ان کی حرکت پر پابندیاں عائد کر دیں۔ اس دور میں خانہ بدوش قبیلوں کو مشکوک نظر سے دیکھا جانے لگا۔ ان کا طرز زندگی کو سوویت یونین کے معاشرتی تصورات کے ساتھ متصادم سمجھا جاتا تھا۔

خانہ بدوشوں کی معاشرت کو ’پسماندہ‘ اور ’غیر پیداواری‘ تصور کیا جاتا تھا۔ یوں سوویت حکومت نے کرغیز سمیت دیگر خانہ بدوشوں کو جدید ’صنعتی تمدن‘ سے روشناس کرانے کا مشن شروع کیا جس کے ذریعے ان کی ثقافت اور شناخت کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ سوویت روس کی اس پالیسی، کمیونٹیز کے ثقافتی انداز میں دخل اندازی اور بارڈرز کو بند کرنے سے خانہ بدوشوں کے لیے نقل مکانی تقریباً ناممکن ہو گئی۔

ایسے میں بہت سے کرغیز خانہ بدوشوں نے اپنے روایتی بدوؤانہ طرز زندگی کو بچانے کے لیے واخان کوریڈور کی طرف ہجرت کی جو آج کے افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے ساتھ واقع ایک تنگ وادی ہے۔ تاریخی طور پر ایک آزاد ریاست کی حیثیت رکھنے والا واخان 19 ویں صدی کے آخر میں افغانستان کے زیر تسلط آ گیا تھا اور ’گریٹ گیم‘ کے دوران برطانوی حکام نے اس علاقے کو برطانوی ہندوستان اور زارِ روس کے درمیان بفر زون قرار دے دیا۔ افغانستان، چین، تاجکستان اور پاکستان کے درمیان واقع یہ پسماندہ مگر تذویراتی لحاظ سے اہم علاقہ کرغیزوں کے لیے ایک مناسب پناہ گاہ بن گیا جہاں انہیں اپنی ثقافت اور معاشرت کو برقرار رکھنے کے لیے درکار اسباب موجود تھے۔

پامیر کے پہاڑوں میں گھری دور افتادہ وادی واخان میں کرغیزوں کے پاس اپنے مال مویشیوں کی پرورش کے لیے قدرتی وسائل دستیاب تھے۔ مگر 1946 میں سوویت روس نے سرحد پار سے بھی حملے شروع کیے، جس سے کرغیزوں کو واخان چھوڑ کر چین کے علاقے سنکیانگ کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ تاہم انہیں وہاں بھی وہ مستقل پناہ نہیں مل سکی جس کی انہیں تلاش تھی۔ 1949 میں چین میں کمیونسٹ انقلاب آگیا جس کے بعد کرغیزوں کے دلوں میں چین سے متعلق بھی وہی خدشات پیدا ہونے لگے جس کا تجربہ انہوں نے روس میں انقلاب کے بعد کیا تھا۔ اس وجہ سے یہ خانہ بدوش مجبوراً واپس واخان آ گئے۔ اس وقت تک یہ گروہ سوویت وسطی ایشیا اور چین میں موجود دیگر کرغیزوں سے عملاً منقطع ہو چکا تھا اور اپنی ثقافتی اور جغرافیائی جڑوں سے کٹنے کے بعد تنہائی اور عدم تحفظ کا شکار تھا۔

معروف ماہر بشریات محمد نازف شہرانی نے 1970 کی دہائی میں واخان جاکر ان کرغیزوں کا مطالعہ کیا اور ’دی کرغیز اینڈ واخی آف افغانستان‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی۔ اپنی کتاب میں انہوں نے لکھا ہے کہ سرحدوں کی بندش کی وجہ سے کرغیزوں کی اس تنہائی نے انہیں ایک مضبوط رہنماء کے گرد اکٹھا ہونے پر مجبور کر دیا حالانکہ کرغیز بدوعموماً کسی اتھارٹی کے تابع ہونے کو پسند نہیں کرتے۔ ایک مقبول کرغیز مقولہ ہے: ’اگر آپ تین کرغیزوں کو ایک خیمے میں رکھیں اور واپس آئیں تو آپ کو ان میں وہاں پانچ سردار کو ملیں گے۔‘ مگر حالات کا جبر کچھ ایسا تھا کہ اس آزاد منش قبیلے کو ایک کرشماتی اور قابل سردار عبدالرحمن قُل کے گرد جمع ہونا پڑا جس کی قیادت ان کٹھن حالات میں انتہائی اہم ثابت ہوئی۔

سن 1913ء میں مرغاب (جو آج کل تاجکستان کا حصہ ہے) میں پیدا ہونے والے رحمان قُل فطری قائدانہ اوصاف سے مالامال تھے۔ سوویت کے ہاتھوں کچھ عرصہ قید رہنے کے بعد واخان فرار ہو جانے والے رحمان قُل نے ان اوصاف اور صلاحیتوں کو اپنے قبیلے کے تحفظ کے لیے بھرپور طریقے سے بروئے کار لایا۔ انہیں ترک، اردو، فارسی، پشتو، روسی اور کچھ حد تک چینی زبان بھی آتی تھی اور انہیں اپنے دور کے پیچیدہ سیاسی منظرنامے کا بھرپور ادراک تھا۔ شہرانی کے مطابق رحمان قل ایک کامیاب قبائلی سردار تھا جن کی قیادت میں ان کے قبیلے نے افغان حکام سے مدد اور تحفظ حاصل کیا۔

1978ء میں کابل میں روسی حمایت یافتہ بغاوت کے بعد افغانستان میں بھی عدم استحکام پیدا ہو گیا۔ 1979 میں سوویت یونین کے افغانستان پر باقاعدہ حملے نے کرغیزوں کو دوبارہ عدم تحفظ کا شکار کیا اور یوں انہیں ایک اور ہجرت کا مشکل فیصلہ کرنا پڑا۔ جولائی 1978 میں رحمان قُل نے اپنے 1300 کرغیزوں اور قبیلے کے جانوروں کو لے کر واخان کو خیرباد کہا اور ڈیورنڈ لائن پار کرکے پاکستان آگیا۔ یہ گروہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ ایک گروہ نے خود رحمان قل کی قیادت میں گلگت بلتستان کے علاقے اشکومن میں سکونت اختیار کی جبکہ دوسرا گروہ ان کے بیٹے عبدالوکیل کی سربراہی میں چترال کی سرحدی وادی بروغیل میں رہنے لگا۔ مگر یہاں نئے ماحول، بیماریوں اور چراگاہوں کی کمی نے ان خانہ بدوشوں کے لیے مشکلات بڑھا دیں۔ ایک سال کے اندر سو سے زائد کرغیز جاں بحق ہو گئے اور ان کے سینکڑوں جانور بھی مر گئے۔پاکستانی حکومت کو سوویت-افغان جنگ کے اس دور میں کرغیزوں کی سیاسی وفاداری اور وابستگی سے متعلق بھی شک تھا جس نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کیا۔ ان حالات میں کچھ کرغیز واپس واخان گئے جہاں افغان حکومت نے انہیں ان کے خدشات کے برعکس خوش آمدید کہا۔ جو لوگ پاکستان میں رہ گئے، ان کے لیے قبیلے کی بقا کے لیے ایک اور ہجرت کرنا ناگزیر ہوگیا تھا۔

یہاں رحمان قُل دوبارہ بصیرت سے مالامال سردار کے طور پر سامنے آئے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ان کا اگلا گھر نہ صرف اس خطے بلکہ پورے براعظم سے بہت دور کا کوئی علاقہ ہوگا۔ جب انہوں نے اپنے اگلے اور مستقل پڑاؤ کے علاقے کا نام لیا تو سب کو حیرت ہوئی اور لوگ اسے دیوانے کا خواب سمجھنے لگے۔ یہ نام شمالی امریکا کے علاقے الاسکا کا تھا! رحمان قُل کو لگا کہ الاسکا کا موسم کرغیزوں کے لیے مناسب ہوگا جہاں وہ سیاسی انتشار سے دور امن سے رہ سکیں گے۔ جلد ہی پریس کے ذریعے ان کی یہ خواہش امریکا تک پہنچی اور وہاں کی سول سوسائٹی کے کئی حلقوں نے اس کی بھرپور حمایت کرنا شروع کی۔ امریکا اس وقت افغانستان میں جنگ کی وجہ سے ہجرت کرنے والوں کی مدد بھی کررہا تھا۔ ادھر رحمان قل نے باضابطہ طور پر اس حوالے سے کوششیں شروع کیں اور امریکی سفارت کاروں تک اپنی عرضی پہنچائی۔ مگر باوجود کوششوں کے، ان کی یہ درخواست قبول نہیں کی گئی۔

قبیلے کے اس بوڑھے سردار نے ہمت نہیں ہاری۔ اس بار انہوں نے امریکا کی جگہ ترکی کا انتخاب کیا۔ کرغیز ترکوں کو ثقافتی اور تاریخی لحاظ سے اپنے قریب تر سمجھتے تھے۔ انہیں یقین تھا کہ ترکی انہیں ضرور قبول کرے گا۔ اس بار خوش قسمتی سے اس وقت کے ترک صدر جنرل کنعان ایورن 1981 میں پاکستان کے دورے پر آگئے۔ اسلام آباد سے بہت دور اشکومن میں موجود رحمان قل نے اپنے قبیلے کے مستقبل کے لیے اپنے طور پر لابنگ شروع کی اور ترکی کے سفارت خانے کے ذریعے اپنی اپیل ترک صدر تک پہنچائی۔ صدر ایورن نے یہ درخواست قبول کی اور کرغیزوں کی فوری ترکی منتقلی کا حکم دے دیا۔اگست 1982 میں اس کرغیز خانہ بدوش قبیلے نے خانہ بدوشی کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہا۔ انہوں نے پشاور اور راولپنڈی میں اپنے ریوڑ بیچ کر ان چارٹر طیاروں میں سوار ہو گئے جو انہیں ترکی پہنچانے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ انہیں ابتدا میں ترکی کے علاقے کورگن کے قریب آباد کیا گیا مگر بعد میں انھیں وان صوبے کے علاقے اولو پامیر منتقل کر دیا گیا جہاں آج وہ رہ رہے ہیں۔

دہائیوں پر محیط سیاسی بحرانوں کے درمیان اپنے قبیلے کی حفاظت کرنے اور طویل جدوجہد سے بالآخر انہیں ایک مستقل گھر دینے کے بعد رحمان قُل 1990 میں وفات پا گئے۔ دنیا بھر میں موجود کرغیز نسل کے لوگ اب بھی انہیں بصیرت سے بھرپور لیڈر اور اپنے قبیلے کے نجات دہندہ کے طور پر یاد کرتے ہیں۔کرغیزوں کی واخان میں خانہ بدوشی سے لے کر چترال اور گلگت میں ہجرت اور پھر وہاں سے ترکی کے جدید طرز زندگی تک کا یہ سفر بدلتی ہوئی دنیا میں مقامی کمیونٹیز کی شناخت اور ان کے روایتی طرز زنگی کے تحفظ سے متعلق خدشات کی کہانی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے