پشاور میں بلدیاتی نمائندوں کا احتجاج آخر معاملہ کیا ہے ؟
ملک بھرکی طرح خیبر پختونخوا میں آئینی طور پر منتخب بلدیاتی نمائندوں کو گذشتہ تین برسوں سے ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا، جس کی بنا پر صوبے بھر کے بلدیاتی نمائندے گذشتہ دودن سے پشاور میں احتجاج کر رہے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کے نمائندوں نےاس سے پہلے بھی اپنے حقوق کے لیے پشاور میں احتجاج کیا تھا۔ پاکستان میں خود کو جمہوریت پسند قراردینے والی وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے گراس روٹ لیول پر منتخب افراد سے اختیارات چھین رکھے ہیں۔پختونخواکے بلدیاتی نمائندوں کا موقف ہے کہ صوبائی حکومت نے ان کے اختیارات اور ترقیاتی فنڈز روک رکھے ہیں۔ پہلی بار احتجاج ہوا تو خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کی جانب سے یقین دہانی کے بعد احتجاج ختم کیا گیا تھا، لیکن وزیراعلیٰ کی جانب سے کیے گئے وعدے پورے نہ ہونے پر ان بلدیاتی نمائندوں نےپھرسے احتجاج شروع کر دیا ہے۔پشاورکے جناح پارک میں جمع ہونے والے نمائندے جب اسمبلی بلڈنگ کی جانب بڑھے توپولیس نے ان پر بے تحاشاآنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کیا۔ جب کہ ان کے 15ساتھیوں کوگرفتار کیا۔ اس دوران اسمبلی چوک میدان جنگ کا منظر پیش کرتا رہا۔ اس دوران رات گئے بلدیاتی نمائندوں نےاحتجاج کومزید آگے بڑھانے کا اعلان کیا۔
اسی تناظر میں جمعرات کو وزیراعلیٰ کی جانب سےایک کمیٹی بنائی گئی تاکہ ان مقامی نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں اور مطالبات کے حل کی کوئی راہ نکالی جا سکے۔بلدیاتی نمائندوں کا کہنا ہےکہ تین سال سے ان کے اختیارات معطل ہیں، حالاں کہ بلدیاتی ادارے جمہوریت کے لیے ایک نرسری کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ لیکن صوبے میں گذشتہ 11سال سے حکومت کرنے والی جماعت تحریک انصاف خود تواسلام آباد تک مظاہرے کرتی ہے لیکن وہ خود اپنے ہاں بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر لاٹھی چارج اور ٓآنسو گیس کے ذریعے تشدد کا نشانہ بناتی ہے۔
صدرلوکل گورنمنٹ کونسل حمایت اللہ مایارکا موقف
جب اس سلسلے میں رپورٹر نے حمایت اللہ مایار سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ”ہم پرامن طریقے سے اپنے حقوق کے لیے احتجاج کر رہے تھے اور کوئی ایک گملا بھی نہیں تھوڑا گیا تھا لیکن ہمارے بندوں پر تشدد کیا گیا، انہیں گرفتار کیا گیا حالاں کہ ہم نے براہ راست عوام سے ووٹ لیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 32اور37 کے تحت عوامی نمائندوں کو بااختیار بنایا گیا ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف صرف اپنے لیے آئین وقانون کو جائز سمجھتی ہے۔ ”یہ خود وفاق سے اپنے حقوق مانگتے ہیں لیکن جب ہم آئین کے مطابق اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں تو یہ انکار کر دیتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اب تک وہ وزیر اعلیٰ سے چار بار ملاقات کر چکے ہیں اور ان کے مطالبات تسلیم بھی کیے گئے ہیں، تاہم اب تک یقین دہانیوں اور وعدوں پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ہم کہتےکہ اگر حکومت کو صوبائی اسمبلی یا کابینہ سے منظوری لینا ہے، تو ہمیں وقت بتا دیں۔ خیبر پختونخوا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019کو بحال کیا جائے 2021 میں جو رولز آف بزنس بنائے گئے ہیں، ان کو بھی بحال کیا جائے، ہمارے 120 ارب روپے کے فنڈز ہیں، وہ تحصیل اور ویلج کونسل کو جاری کیے جائیں۔ ہمارے تین سال ضائع کر دیے گئے، تواب ہمیں تین سال کے لیے توسیع دی جائے۔ یہ ہمیں جیلوں میں ضرور ڈالیں لیکن ہم اپنےحقوق کے لیےاحتجاج کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
اپوزیشن کے زیادہ تر سیاسی جماعتو ں نے احتجاج کی حمایت کی
اس احتجاجی کیمپ میں صوبے کی کئی سیاسی جماعتوں کے قائدین اظہار یکجہتی کے لیے پہنچے ہیں۔جماعت اسلامی کے صوبائی امیر عنایت اللہ خان نے بلدیاتی نمائندوں کی جانب سے مطالبات کی بھر پور حمایت کرتے ہوئے کہا، ”میں اس لاٹھی چارج کی مذمت کرتا ہوں میں۔ میں ان کے ساتھ یکجہتی کے لیے آیا ہوں۔ صوبائی حکومت یہ ظلم بند کرے کہ وہ جو اسلام آباد سے اپنے حقوق مانگتے ہیں، اپنے ہاں ان لوگوں کو ان کے حقوق دیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ اسلام آباد میں خود کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے مظاہرے کریں اور یہاں اپنے لوگوں کے حقوق دینے سے انکار کرکے ان پرلاٹھی چارج اور اور گرفتاریاں کریں۔ یہ ظلم ہے۔
وفاقی وزیر امیر مقام کا احتجاجی کیمپ کا دورہ
وفاقی حکومت سمیت پنجاب سندھ اور بلوچستان نے بھی بلدیاتی اداروں کے ساتھ یہی سلوک کیا ہے وفاق میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حکومت ہے لیکن پنجاب سمیت سندھ میں بھی میٹروپولٹین کے منتخب افراد اختیارات ختم کرنے اور فنڈز روکنے کا شکوہ کرتے ہیں بعض علاقوں میں بلدیاتی نمائندوں کی بجائے ترقیاتی فنڈز حکمران جماعت کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے ہاتھوں خرچ کیے جاتے ہیں۔بلدیاتی نمائندوں کاپشاور کے جی ٹی روڈ پر واقع جناح پارک میں کیمپ کا دورہ کرنے والے وفاقی وزیر امیر مقام کا کہنا تھا، ”یہ عوام کے منتخب نمائندے ہیں۔ انہوں نے صوبائی اسمبلی پرقبضہ نہیں کرنا بلکہ یہ اپنےآئینی حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ہم ان کے مطالبات کی حمایت کرتے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے وفد کا موقف
احتجاجی کیمپ میں موجود عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر میاں افتخار حسین نے میڈیا سے گفتگو میں کہا، ”تین سال سے بلدیاتی نمائندوں کو فنڈز نہیں ملے۔ ان کا احتجاج پُرامن ہے لیکن ان پر صوبائی حکومت کی ایما پر تشدد کیا گیا۔ ہم ان پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے استعمال کی مذمت کرتے ہیں۔
بلدیاتی نمائندوں کا صوبائی حکومت سے پانچویں بار مذاکرات
صوبائی حکومت نے لوکل کونسل کے منتخب نمائندوں کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک اور کمیٹی تشکیل دی ہے۔ چھ ارکان پر مشتمل کمیٹی کے سربراہ صوبائی وزیرمالیات ہوں گے جبکہ بلدیاتی نمائندوں کی جانب سے کونسل کے صدر حمایت اللہ مایار سمیت پانچ دیگر ممبران ہوں گے۔ مذاکراتی کمیٹی نے 20دن میں تین میں سے دومطالبات پورا کرنے کااعلان کیا۔ بلدیاتی اداروں کے منتخب افراد نے احتجاج موخر کرتے ہوئے کہا کہ اگر 20 دن میں مطالبات پورا نہ ہوئے تو پھر سے احتجاج کیا جائے گا۔