وزیرستان کو بچائیں
وزیرستان دن بدن انسانوں کا قبرستان بنتا جارہا ہے، لوگ ایک بار پھراپنا گھر بار چھوڑنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ابھی کل ہی کچھ گھرانے جنوبی وزیرستان اَپر کے گاوں نانو کا علاقہ چھوڑ کر نکل گئے۔میرے آبائی علاقہ مکینوں میں گزشتہ ہفتے کئی افسوسناک واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ خدشہ ہے کہ لوگ علاقہ چھوڑ جائیں گے اور ایک بار پھر سے کچھ انجان لوگ آباد گھرانوں میں گھس آئیں گے، ایسے ہوا تو کئی لوگوں کو اپنے وطن کا آخری دیدار بھی نصیب نہیں ہوگا۔ایک محترم لکھتے ہیں کہ سابقہ فاٹا تھا ہی ایسا اور یہاں بڑے پیمانے پر سوچ بدلنے کی ضرورت ہے، جس کے لیے ریاستی سطح پر ہنگامی بنیادوں پر سر جوڑ کر بیٹھنا پڑے گا۔بطور قبائلی اس بات سے اتفاق ہے کہ ریاستی سطح پر سابقہ فاٹا کے حالات سنبھالنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر سوچنا پڑے گا، ورنہ حالات مزید بگڑتے جائیں گے، مگر سوچنے والوں کے گزشتہ ادوار میں کی گئی غلطیوں کو نظر میں رکھ کر اگلے اقدامات اٹھانے ہوں گے، نہیں تو اس وقت عوامی سطح پر پھیلی یہ سوچ گہری ہوتی جائے گی کہ حکومت کا مسئلہ عوام کے ساتھ ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ وزیرستان کیسا تھا یا سابقہ فاٹا کیسا تھا؟ اس کی تصویر مجموعی طور پرغلط پیش کی جاتی رہی ہے۔ نائن الیون سے پہلے ہمارے اسی چھوٹے اور خوبصورت شہر میں مکین تھے، حالانکہ لوگوں کے پاس اسلحہ ہوا کرتا تھا، مگر ایک مضبوط قبائلی نظام تھا جہاں احتساب کا خود ساختہ سسٹم حالات کو بگڑنے سے روکتا تھا۔ پشتون ولی کے تحت شرم و حیا اور غیرت کی ایسی مضبوط دیواریں کھڑی تھیں کہ کسی شخص کو غلطی کرنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑتا تھا۔دادا مرحوم کے ساتھ مکین سے وانہ جارہا تھا کہ اسی گاڑی کو مکین اور وانہ کے درمیانی علاقے تاڑے ژاور کے مقام پر ڈاکوؤں نے روکا، ایک شخص کو زبردستی اتارنے کی کوشش کی گئی۔ دادا نے اپنے پاس موجود پسٹل نکالی اور ڈاکووں پر تان لی کہ آپ اس شخص کو ہلا بھی نہیں سکتے۔ حالات دیکھ کر خوف سے میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے، مگر دادا کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھے، دادا کے پاس ایک چھوٹی سی پستول تھی اور ڈاکووں کے پاس کلاشنکوف، مگر وہ ڈاکو دادا سے احترام کے لہجے میں بس ایک ہی بات کرتے کہ حاجی صاحب یہ بندہ ہندو ہے اور یہاں کسی علاقے کے بندے کو کچھ نہیں کہا جارہا، ہمارے دادا کا اصرار تھا کہ ہندو ہے یا مسلمان، مگر ہمارا مہمان ہے اور ہمارے ساتھ ہے۔ یا تو ہمارے سروں سے گزر کر اس تک پہنچنا ہوگا یا پھر یہاں سے چلتے بنو۔
ہمارے دادا علاقے میں نانا کے نام سے مشہور تھے اور ڈاکووں نے آخر میں کہا کہ نانا آپ ہمارے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔ ان کے پاس اسلحہ تھا، جوان تھے، تعداد میں زیاد تھے، سنسان علاقہ تھا، اگر وہ چاہتے تو میرے دادا کو ایک دھکے کی مار سے ہٹا سکتے تھے۔ مگر اِن ڈاکووں کو یہ احساس تھا کہ ہم اس مشر کی بے حرمتی نہیں کرسکتے، اور یوں وہ ہندو کو چھوڑ کر چلتے بنے۔بعد میں ہندو نے بتایا کہ وہ یہاں مکین اور وانہ میں دکانداروں کو سالوں سے مال بھیجتا آرہا ہے، اور ان کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد ہرگز نہیں ہے کہ ہم سابقہ فاٹا کی روایات میں شامل ان منفی چیزوں کا دفاع کریں گے جن کے خلاف ہم آواز اٹھاتے آئے ہیں، لیکن موجودہ معاشرتی برائیوں کا اگر اپنے ان حالات سے موازنہ کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہماری وہ جاہلیت کا زمانہ موجودہ جدید معاشرے سے بہتر نظر آتا ہے۔جنوبی وزیرستان اَپر میں پیش آنے والے افسوسناک واقعات کے بعد مقامی لوگوں کے مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے، جس کے لیے مکین میں محسود گرینڈ جرگے کا انعقاد بھی عمل میں لایا گیا،
مگر اس وقت جرگوں کا اثر اس لیے نہ ہونے کے برابر ہے کہ جرگوں کے پاس اختیار ہی نہیں ہے۔ اختیار سے مراد کہ پہلے جرگوں میں قومی مشران جو فیصلہ کرتے، ان پر عمل ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب فریقین مختلف نظریات کے حامل ہیں، جو جرگوں کو وقتی ریلیف تو ماننے کے لیے تیار ہوسکتے ہیں، لیکن دونوں کی ترجیحات وہ نہیں ہے جو قوم کی ہیں۔دوسرا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت یہ ہے کہ سیویلین ایڈمنسٹریشن کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے، اور ہم سالوں سے التجا کرتے آئے ہیں کہ آپ اگر مسئلے کا پائیدار حل چاہتے ہیں تو آپ کو اختیار ضلعی انتظامیہ کے حوالے کرنا پڑے گا۔ مگر اس وقت حالت یہ ہے کہ یہاں موجود ڈپٹی کمشنر برائے نام بیٹھا رہتا ہے۔ سسٹم سے منسلک مالکان اور مشران ڈپٹی کمشنر سے دور ہوتے جارہے ہیں، کیونکہ ڈپٹی کمشنرز کے پاس جرگے منعقد کرانے کے پیسے تک نہیں ہوتے۔ صوبائی حکومت تاریخ کی نااہل ترین حکومت ثابت ہوئی۔ضروت اس امر کی ہے کہ مسائل کے حل کے لیے سول انتظامیہ کو مضبوط کرنا ہوگا۔ ان کو فنڈز دینے ہوں گے، نہیں تو یوں ہی جرگے منعقد کروائے جائیں گے، اور نتائج مثبت کے بجائے منفی آتے رہیں گے۔
کالم نگار :- شہریار محسود