شام: تعلیمی نصاب میں تبدیلیوں سے اقلیتی گروپ تشویش میں مبتلا
انسانی حقوق کے رہنماؤں کی طرف سے شام کی نئی حکومت کی جانب سے نصاب میں تبدیلیوں کو ’شدت پسندانہ‘ اور مذہبی اقلیتوں کے لیے ممکنہ طور پر نقصان دہ قرار دیے جانے کے بعد ان تبدیلیوں کا محتاط دفاع کیا ہے۔رپورٹ کے مطابق ان ترامیم کا اعلان بدھ کے روز عبوری قیادت کی وزارت تعلیم کے فیس بک پیج پر کیا گیا تھا، یہ حیات تحریر الشام کی قیادت میں فورسز نے طویل عرصے سے حکمرانی کرنے والے بشار الاسد کا تختہ الٹنے کے ایک ماہ سے بھی کم عرصے بعد سامنے آیا۔
نصاب میں کی جانے والی تبدیلیوں میں خواتین اور محبت سے متعلق شاعری کو ختم کرنا شامل ہے۔ قومی ترانے کو بھی نصابی کتب سے ہٹا دیا گیا ہے، جسے وزارت نے ’(الاسد) حکومت کا ترانہ‘ قرار دیا ہے۔اسی طرح قوم پرستانہ جملہ ’اپنے وطن کے دفاع میں جان قربان کرنا‘ کو ’اللہ کی خاطر جان قربان کرنا‘ سے بدل دیا گیا ہے۔وزیر تعلیم نذیر القادری نے ٹیلی گرام پر شیئر کیے گئے بیان میں کہا کہ تبدیلیوں کا مقصد صرف معزول صدر کے حوالے سے ’تعریفی کلمات‘ کو ختم کرنا اور قرآن پاک کی غلط تشریحات کو ٹھیک کرنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ’تمام شامی اسکولوں میں نصاب اس وقت تک پہلی والی شکل میں برقرار رہے گا جب تک کہ ان کا جائزہ لینے اور آڈٹ کرنے کے لیے خصوصی کمیٹیاں تشکیل نہیں دی جاتیں۔‘نذیر القادری نے کہا کہ ’ہم نے صرف ان حصوں کو حذف کرنے کا حکم دیا ہے جو بشار الاسد کی معدوم حکومت کی تعریف کرتے ہیں، اور ہم نے معدوم حکومت کے جھنڈے کے بجائے شامی انقلاب کے جھنڈے کی تصاویر کو اپنایا ہے۔‘ان تبدیلیوں نے تنازع کو جنم دیا ہے اور بہت سے لوگوں نے غم و غصے کا اظہار کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا۔
سماجی کارکن اور صحافی شہریار خلیل نے فیس بک پوسٹ میں تبدیلیوں پر تنقید کرتے ہوئے خبردار کیا کہ ’انتہا پسند نظریات پر مبنی تعلیم ایسے افراد کو تشکیل دے سکتی ہے جن کے نظریات علاقائی اور بین الاقوامی سلامتی کے لیے خطرہ ہوں۔‘شام کے نئے حکام کو اسد خاندان کی پانچ دہائیوں کی حکمرانی میں تشکیل پانے والے ریاستی اداروں کی تعمیر نو کے مشکل کام کا سامنا ہے، لیکن کچھ شامیوں نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ وہ اپنے عبوری اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں۔شہریار خلیل نے کہا کہ ’حیات تحریر الشام کی نگرانی میں نصاب کی تبدیلی صرف ایک تعلیمی خطرہ نہیں ہے، بلکہ شام کے سماجی خدوخال اور مستقبل کے لیے ایک طویل مدتی خطرہ ہے۔‘