انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کی فرضی جمہوریت

nayeema-new.jpg

جمہوریت کا مطلب صرف ووٹ ڈالنا اور نمائندے منتخب کرنا نہیں بلکہ ووٹروں کے مسائل حل کرنا، اداروں کی شفاف پالیسی کو یقینی بنانا اور آئین کے مطابق انسانی حقوق کی پاسداری بھی ہوتا ہے۔نیشنل کانفرنس کے ایک سرکردہ کارکن شاہد بٹ کہتے ہیں، ’جموں و کشمیر کے تناظر میں اگر دنیا کو دکھانے کے لیے محض نمائندے منتخب کرنا تھا جن کے پاس انتخابی منشور کو پورا کرنے کا اختیار بھی نہیں ہے تو ایسی جمہوریت کا بستر گول کر کے جہلم میں غرق آب کرنا بہتر ہے۔یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے کہ خطے کے بیشتر ووٹروں میں بےچینی بڑھتی جا رہی ہے کہ نیشنل کانفرنس کی سرکار مہنگی گاڑیوں اور سیکریٹریٹ کے گرم کمروں میں بیٹھنے کے سوا مسائل کے حل کے لیے کچھ نہیں کر پاتی ہے، جن کا اس پارٹی نے وعدہ کیا تھا۔اس کا تعین کون کرے کہ وہ کچھ کرنا نہیں چاہتی یا اسے کچھ کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے کیونکہ اب تک کے اہم فیصلے ایل جی منوج سنہا کی جانب سے ہی کیے جا رہے ہیں جن کے کنٹرول میں بظاہر ساری انتظامیہ بدستور نظر آ رہی ہے۔

نیشنل کانفرنس کی سرکار اپنے بانی اور قد آور لیڈر شیخ عبداللہ کے جنم دن پر سرکاری چھٹی کا حکم تبدیل کرنے کی اہل نہیں ہے، جس نے انتخابی مہم کے دوران آرٹیکل 370 کی بحالی کا بلند و بانگ وعدہ کیا ہے۔چند روز پہلے انتظامیہ کی جانب سے سرکاری چھٹیوں کی فہرست جاری ہوئی جو گذشتہ پانچ سال سے بی جے پی کے لیفٹیننٹ گورنر نے ترتیب دی ہے اور جس میں ردوبدل کر کے 13 جولائی کا یوم شہدا اور پانچ دسمبر کی شیخ عبداللہ کے جنم دن کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئی تھیں۔امید تھی کہ جمہوری حکومت کے قیام کے بعد یہ چھٹیاں بحال کر دی جائیں گی مگر نیشنل کانفرنس کی حکومت کے باوجود ایسا نہیں کیا گیا جس سے گو کہ منتخب حکومت کی کافی سبکی ہوئی ہے لیکن ساتھ ہی عوام میں شدید ردعمل کا اظہار دیکھا گیا ہے۔اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے والی 70 فیصد آبادی کو یقین تھا کہ عمر عبداللہ کی سرکار اپنے سخت موقف کا اظہار کر کے کم از کم یوم شہدا کی چھٹی بحال کروائے گی جس کے ساتھ نہ صرف کشمیر کی جدوجہد جڑی ہوئی ہے بلکہ جذباتی طور پر اس تاریخی واقعے کے ساتھ وابستگی بھی ہے۔

اس دن مہاراجہ ہری سنگھ کے خلاف عوامی مظاہروں کے دوران 22 نہتے شہریوں کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا تھا اور اس روز کشمیر کی تحریک آزادی کی بنیاد پڑی تھی۔آپ کو یاد ہو گا کہ 1931 میں 13 جولائی کو ڈوگرہ آمرانہ نظام کے خلاف اعلان جنگ کا آغاز ہوا تھا جس کی طرفداری اس وقت کی بڑی جماعت انڈین نیشنل کانگریس پارٹی نے کی تھی۔تب سے 13 جولائی ہر سال یوم شہدا کے طور پر منایا جاتا رہا ہے اور یہ تقریباً 70 برس تک کیلنڈر میں تعطیل کا دن رہا ہے۔کشمیری ووٹر کو اس بات کا گلہ نہیں کہ شیخ عبداللہ کے جنم دن کی چھٹی کو ان کی جماعت نیشنل کانفرنس بحال نہیں کر پائی بلکہ اس بات پر شدید برہمی ہے کہ پارٹی کو اپنی تاریخ کا مسخ ہونے کا غم بھی نہیں ہے جس پر خود اس پارٹی کی آج تک بنیاد قائم ہے۔

اپوزیشن پارٹی پی ڈی پی کے رہنما وحید پرہ کہتے ہیں کہ ’نیشنل کانفرنس اپنے حقوق حاصل کرنے کی ہمت بھی نہیں کر پا رہی ہے وہ چاہے آرٹیکل 370 ہو یا چھٹیاں بحال کرنے کا مسئلہ ہو، لگتا ہے کہ جیسے اس پارٹی پر سکتہ طاری ہوا ہے اور وہ ایک تماشائی کی طرح خطے کی بربادی دیکھ رہی ہے۔نیشنل کانفرنس میں اندرونی طور بھی اختلاف رائے نظر آتا ہے جس کا واضح ثبوت نوجوانوں کے حالیہ احتجاج کے دوران ملا، جب پارٹی کے رکن پارلیمان آغا روح اللہ نے ریزرویشن کے مسئلے پر اوپن میرٹ طلبہ کے ساتھ عمر عبداللہ کے گھر کے باہر مظاہرے میں شرکت کی۔

اس مظاہرے میں اپوزیشن جماعتوں کے نمائندے بھی شامل رہے۔ حکمران جماعت کے لیے یہ باعث خفت رہا جب اراکین کے بیچ میں سوشل میڈیا پر تنقید دیکھی گئی۔نیشنل کانفرنس کے سربراہ اور وزیراعلیٰ عمر عبداللہ پر دباؤ بڑھ رہا تھا کہ وہ یا تو ہمت کر کے انڈین انتظامیہ سے سیاسی اور معاشی حقوق حاصل کرنے میں پہل کریں یا اس کے ہائبرڈ نظام کو عوام کے سامنے ایکسپوز کریں تاکہ عوام اپنے حقوق حاصل کرنے کے دوسرے آپشنز کے بارے میں سوچیں۔بعض نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر دہلی کے سابق وزیراعلیٰ اروند کیجریوال اپنے عوام کے لیے جیل جا سکتے ہیں تو عمر عبداللہ کم از کم مرکزی حکومت کی کشمیر مخالف پالسیوں پر سے پردہ اٹھا سکتے ہیں یا اپنی حکومت سمیت مستعفی ہو کر گھر جا سکتے ہیں۔

اسی دباؤ کے پیش نظر عمر عبداللہ نے پہلی بار پریس کانفرنس بلائی مگر انہوں نے آرٹیکل 370 کی بحالی پر بات نہیں کی بلکہ مرکزی حکومت سے ریاستی درجہ بحال کرنے کی درخواست کی۔انہوں نے پوچھا کہ اگر بی جے پی کی حکومت جموں و کشمیر کے مسئلے کے بارے میں سمجھتی ہے کہ اسے اب حل کر لیا گیا ہے۔عمر عبداللہ کی اس پریس کانفرنس سے ان کی بے بسی عیاں ہو رہی تھی اور وہ اپنے ووٹروں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی یقین دہانی بھی نہیں کرا سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے