9/11 حملوں کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد سمیت 3 ملزمان کے ساتھ ڈیل کی راہ ہموار

2677546-nine-1722499965-600x450.jpg

امریکا میں ملٹری اپیلیٹ کورٹ نے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کی اپیل مسترد کرتے ہوئے نائن الیون حملوں کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد اور اس کے دو ساتھیوں کے ساتھ ڈیل کی راہ ہموار کردی۔ڈیل کی صورت میں نائن الیون حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد، ولید بن عطاش اور مصطفیٰ الحوسی نائن الیون حملوں کی سازش کرنے کا اعتراف کرکے سزائے موت سے بچ جائیں گے۔امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق پینٹاگون میں اپیلوں کی سماعت کرنے والے ایک پینل نے پیر کو فوجی جج کے اس فیصلے کو برقرار رکھا ہے کہ 11 ستمبر کے مقدمے میں ڈیل کی درخواست ہے، اس فیصلے سے کم از کم فی الحال نائن الیون حملوں کے ملزم ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کی درخواست کی سماعت کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔

نومبر میں اس کیس کے جج کرنل میتھیو این میک کال نے فیصلہ سنایا تھا کہ وزیر دفاع لائیڈ جے آسٹن سوم نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے پینٹاگون کے سینئر عہدیدار کی جانب سے معاہدے پر دستخط کے 2 دن بعد انتہائی تاخیر سے 3 معاہدوں کو منسوخ کیا تھا۔پری ٹرائل معاہدوں کے تحت خالد شیخ محمد اور دو شریک ملزمان نے سزائے موت کے مقدمے کا سامنا کرنے کے بجائے عمر قید کی سزا کے بدلے جنگی جرائم کے الزامات کا اعتراف کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے نیویارک، پنسلوینیا اور پینٹاگون میں حملے کرکے تقریباً 3 ہزار افراد کو قتل کرنے والے ہائی جیکرز کے ساتھ مل کر سازش رچی تھی، ملزمان کا مقدمہ 2012 سے سماعت سے قبل کی کارروائیوں میں پھنسا ہوا ہے۔

تین رکنی پینل نے پیر کی رات کو جاری کیے گئے 21 صفحات پر مشتمل فیصلے میں لکھا ہے کہ ’ہم فوجی جج کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ سیکریٹری کے پاس ملزمان کی موجودہ درخواست کو منسوخ کرنے کا اختیار نہیں تھا کیونکہ ملزمان نے پری ٹرائل معاہدوں پر پیش رفت شروع کر دی تھی‘۔اس معاہدے کی حمایت یا مخالف کرنے والے متاثرینِ نائن الیون کے اہلخانہ کو اس پینل کے فیصلے کا بےچینی سے انتظار تھا تاکہ خالد شیخ محمد، ولید بن عطاش اور مصطفی الحوسوی کی درخواستوں کا الگ الگ جائزہ لیا جا سکے، کچھ لوگوں نے معاہدے کی غیر متوقع نوعیت کو تکلیف دہ قرار دیا ہے۔اپیل کی عدم موجودگی میں جنوری میں گوانتانامو بے میں درخواست دائر کرنے کی کارروائی ایک ماہ تک جاری رہنے والے عمل کا پہلا قدم ہوگا جو ممکنہ طور پر پورے سال جاری رہے گا جس میں اس کیس کی سماعت کے لیے فوجی جیوری کا انتخاب کیا جائے گا، جس میں متاثرین کی گواہی اور کسی بھی قسم کے حالات شامل ہوں گے۔

ملٹری کمیشن کے چیف پراسیکیوٹر ریئر ایڈمرل آرون سی روگ نے پیر کی رات اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ آیا ان کی ٹیم محکمہ انصاف کو ڈسٹرکٹ آف کولمبیا سرکٹ کے لیے امریکی کورٹ آف اپیلز میں اس کیس کی مزید پیروی کرنے کے لیے کہے گی یا نہیں۔ایڈمرل آرون سی روگ کے استغاثہ نے دو سال سے زائد عرصے تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد اس درخواست کی منظوری دی تھی اور اس کے بعد فوجی کمیشنز کی انچارج سوزن کے اسکیلر نے اس کی منظوری دے دی ہے۔اب ان پراسیکیوٹرز کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اپیل کی اعلیٰ عدالتوں میں سماعت روکنے کی کوشش کی جائے یا نہیں، وزیر دفاع لائیڈ جے آسٹن کا معاہدوں کو منسوخ کرنے کا فیصلہ پہلے ہی مہینوں پر مشتمل قانونی چارہ جوئی کا سبب بن چکا ہے۔

خالد شیخ محمد اور دیگر ملزمان کے وکلا نے یہ دلیل دیتے ہوئے کہ معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں اور وہ عدالت میں دائر کر دیے گئے ہیں، ٹرائل جج پر زور دیا تھا کہ وہ موسم گرما میں درخواست کی کارروائی کو تیزی سے آگے بڑھائیں کیونکہ جج نے وزیر دفاع کی کارروائی سے قبل ہی درخواست سننے کی تیاری شروع کر دی تھی۔امریکی وزیر دفاع ایشیا کے سفر پر تھے کہ پینٹاگون نے اعلان کیا کہ معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کے بعد انہوں نے اپنے عملے سے مشورہ کرکے ایک دستاویز پر دستخط کیے جس میں مبینہ طور پر واشنگٹن واپسی پر معاہدے کو منسوخ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

امریکی وزیر دفاع نے حال ہی میں گوانتانامو بے میں دو دیگر عدالتی مقدمات میں ڈیل کے مذاکرات کا انتظام سنبھالا ہے، ان میں سے ایک سعودی شخص کے خلاف سزائے موت کا مقدمہ ہے جس پر سن 2000 میں امریکی بحری جہاز یو ایس ایس کول پر کیے گئے بم دھماکے کی منصوبہ بندی کا الزام ہے۔دوسرا مقدمہ ایک انڈونیشی شہری کے خلاف ہے جو 2002 میں بالی بم دھماکے کے ملزم ماسٹر مائنڈ کے طور پر زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے، دونوں میں سے کوئی معاہدہ طے نہیں پایا تھا۔اپیل سننے والے پینل نے قرار دیا ہے کہ سیکریٹری دفاع کو یہ اختیار تو حاصل ہے کہ وہ جنگی عدالت کے نگران کو عام اصول کے طور پر تو ایک ڈیل پر بات چیت سے روک سکتے ہیں، لیکن پہلے سے نافذ شدہ معاملے میں ایسا نہیں کر سکتے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔