بنگلہ دیش، پاکستان کے مابین مفاہمت کے بھارت پر ممکنہ اثرات
پچھلے اگست میں طالب علموں کی تحریک کے ذریعے شیخ حسینہ کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد محمد یونس کی بنگلہ دیش کے عبوری رہنما کے طور پر تقرری کے بعد سے ہی، ڈھاکہ اور اسلام آباد قربت اور مفاہمت کی راہ پر گامزن دکھائی دے رہے ہیں۔پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف اور یونس نے دسمبر میں قاہرہ میں ایک کانفرنس کے موقع پر ملاقات کے بعد باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو مزید گہرا کرنے پر اتفاق کیا۔
سمندری روابط اور فوجی تعلقات
سن انیس سو اکہتر کی جنگ، جب بنگلہ دیشی قوم پرستوں نے مغربی پاکستان سے علیحدگی اختیار کر لی تھی، کے بعد براہ راست سمندری رابطوں کا قیام، دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک تاریخی قربت کی علامت ہے۔بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے سابقہ پابندیوں کو بھی ختم کر دیا جس کے تحت پاکستان سے آنے والے کارگو کی فزیکل انسپکشن لازمی تھی۔پاکستان فروری 2025 میں بنگلہ دیش کی فوج کو تربیت دینا شروع کرے گا، جس سے دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعلقات مضبوط ہوں گے۔ کراچی بندرگاہ پر ہونے والی مشترکہ بحری مشقوں "امن 2025” میں بنگلہ دیش بھی پاکستان کے ساتھ شامل ہو گا۔اب جب کہ پاکستان بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کر رہا ہے، خطے میں ممکنہ سکیورٹی خطرات کے بارے میں خدشات بڑھ رہے ہیں۔ بھارت ان پیش رفت پر قریبی نگاہ رکھے ہوئے ہے ۔ یہ پیش رفت جنوبی ایشیا میں طاقت کی حرکیات کو نئی شکل دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
بھارت کے لیے اسٹریٹجک اثرات
حسینہ کی معزولی کے بعد سے نئی دہلی کے ساتھ ڈھاکہ کے تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں، جنہیں بھارت کی حمایت حاصل تھی اور اب وہ دہلی میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔خارجہ پالیسی کے ماہرین اور سفارت کاروں کا خیال ہے کہ بھارت کو اپنی شمال مشرقی ریاستوں میں عدم استحکام اور سلامتی کے خطرات کے ایک پیچیدہ جغرافیائی سیاسی ماحول کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔جہاں نئی دہلی ان پیش رفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، وہیں وہ بنگلہ دیش کے ساتھ اپنی سرحد پر بھی سکیورٹی بڑھا رہا ہے۔منترایا انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز کی بانی شانتی میریٹ ڈی سوزا نے نمائندہ بصیر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا،”اس میں کوئی شک نہیں کہ بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان تعلقات مجموعی طور پر بہتر ہوئے ہیں۔ اس تبدیلی کے بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں کے لیے سکیورٹی کے مضمرات ہیں۔
نئی دہلی طویل عرصے سے سرحدی علاقوں میں انسانی اسمگلنگ، دراندازی اور عسکریت پسندوں کی شورش کے بارے میں فکر مند ہے۔ خاص طور پر بنگلہ دیش کی سرحدیں بھارتی ریاستوں مغربی بنگال، آسام، میگھالیہ، تریپورہ اور میزورم سے ملتی ہیں، جہاں تشدد بھڑک اٹھنے کا خطرہ زیادہ رہتا ہے۔ڈی سوزا کا کہنا تھا، "غور کرنے کے لیے اہم سوالات یہ ہیں کہ کیا یہ مضبوط تعلقات محض بھارتی حکمت عملی کے دباؤ کا ردعمل ہیں، یا یہ بھارت کو غیر مستحکم کرنے کے کسی بڑے منصوبے کا حصہ ہیں؟ اگر اہم موخرالذکر کو درست مان لیں، تو کیا ڈھاکہ ایسی کسی پالیسی پر عمل کرنے کا اہل ہے، جواب ہے نہیں۔
بنگلہ دیش میں پاکستان کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ
ڈی سوزا کے مطابق، یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا یونس کی پالیسیاں بنگلہ دیش کی بیوروکریسی کے ساتھ ہم آہنگ ہوں گی۔انہوں نے مزید کہا، "خطے میں تیزی سے بدلتی ہوئی اندرونی اور بیرونی حرکیات سے نمٹنے کے لیے نئی دہلی کو اپنی آنکھیں اور کان ہر وقت کھلی رکھنے اور چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔پاکستان میں بھارت کے سابق ہائی کمشنر اجے بساریہ نے بتایا کہ نئی دہلی کے اپنے پڑوسیوں بالخصوص بنگلہ دیش کے ساتھ دیرینہ تعلقات بھارت کی سکیورٹی کے خدشات کو دور کرنے کے بدلے ڈھاکہ کی خوشحالی کو فروغ دینے پر مرکوز ہیں۔
بساریہ نے کہا، "اس تفہیم کو ڈھاکہ کی نئی حکومت چیلنج کر رہی ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ بنگلہ دیش کے ساتھ سکیورٹی تعلقات کی تعمیر نو اور بھارتی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کی پاکستان کی کوششیں علاقائی سلامتی کے توازن کو غیر مستحکم کر سکتی ہیں۔”بساریہ کا کہنا تھا، "گوکہ بھارت اس ترقی پذیر متحرک پر گہری نگاہ رکھے گا، اسے مشرقی علاقے میں پاکستان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو فعال فوجی پوزیشنوں اور حفاظتی اقدامات کے ذریعے چیک لگانے کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
اسلحے کی منتقلی سے تشویش میں اضافہ
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان نیا اتحاد بھارت کے اسٹریٹجک مفادات، خاص طور پر سلی گوڑی راہداری، جسے ‘چکن نیک’ کہا جاتا ہے، کے لیے ایک اہم خطرہ ہے۔جغرافیائی طور پر بیس بائیس کلومیٹر کی یہ حساس راہداری شمال مشرقی بھارتی ریاستوں کو ایک تنگ پٹی کے ذریعے بھارت کے باقی حصوں سے جوڑتی ہے۔بھارت کو خدشہ ہے کہ چین بنگلہ دیش کے ساتھ ترقیاتی کاموں کی آڑ میں راہداری کے قریب اپنی موجودگی قائم کرنا چاہتا ہے۔دریں اثنا، بھارت نے بنگلہ دیش کے ساتھ اپنی سرحد پر سکیورٹی بڑھا دی ہے۔ تکنیکی آلات کی تنصیب میں اضافہ کردیا گیا ہے اور اعلیٰ سطحی بارڈر سکیورٹی فورس کی گشت بھی بڑھا دی گئی ہے۔ تاکہ ممکنہ خطرات کو دور کیا جا سکے اور بغیر باڑ والے سرحدی علاقوں میں دراندازی اور اسمگلنگ کو روکا جا سکے۔
بنگلہ دیش میں ایک سابق ہائی کمشنر، پناک رنجن چکرورتی نے رپورٹر کو بتایا، "بھارت کو بنگلہ دیش کو ہتھیاروں اور دھماکہ خیز مواد کی منتقلی کے بارے میں سکیورٹی خدشات لاحق ہوں گے، یہ اسلامی دہشت گردوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں، جنہیں یونس کی قیادت والی عبوری حکومت نے آزاد کر دیا ہے۔چکرورتی کا کہنا تھا کہ باغی گروپوں کو ان ہتھیاروں کی منتقلی سے بھارت میں سکیورٹی کے اہم مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔تاہم، جندل اسکول آف انٹرنیشنل افیئرز سے وابستہ بنگلہ دیش امور کی ماہر سری رادھا دتہ نے بتایا کہ اگرچہ بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات اس وقت مشکل دور سے گزر رہے ہیں، لیکن بنگلہ دیش میں منتخب حکومت کے قائم ہونے کے بعد آپس میں نرمی آجائے گی۔
دتہ نے کہا، "اگرچہ بنگلہ دیش اور پاکستان قربت اور مفاہمت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، لیکن یہ بھارت ہی ہے جو ڈھاکہ کے لیے زیادہ اہم ہے۔”دتہ کا کہنا تھا دونوں فریقوں کو موجودہ بیان بازی پر قابو پانے اور معمولات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایک بار جب دوطرفہ مصروفیات دوبارہ شروع ہو جائیں گی، بھارت کی سلامتی کے خدشات کو یقینی طور پر سمجھ لیا جائے گا اور یہ تب ہی ہو گا جب پڑوسی غیر ضروری مسائل کو اٹھانے سے گریز کریں۔