غزہ میں جاری جنگ کے دوران بیت لحم میں اداسی کے ماحول میں کرسمس

71152993_1004.jpg

غزہ میں جاری جنگ کے سائے میں مغربی کنارے میں واقع حضرت عیسی کی جائے پیدائش بیت لحم میں اس سال بھی کرسمس کا تہوار اداسی کے ماحول میں منایا جائے گا۔کرسمس کے موقع پر مقبوضہ علاقے کے فلسطینی قصبے میں جوش و خروش اور خوشی جو عام طور پر دیکھی جاتی ہے کہیں نظر نہیں آ رہی۔گزشتہ سالوں میں دیکھی گئی تہوار کی روشنیاں اور دیوہیکل درخت بھی جو عام طور پر مینجر اسکوائر کو سجاتے تھے منظر سے غائب ہیں۔اسی طرح جوان لوگوں کے علاقے میں مارچ کرنے والے بینڈز کے بھی کوئی آثار نہیں ہیں اور نہ ہی یہ توقع کی جا رہی ہے کہ اس مقام پر غیر ملکی سیاحوں کے پہلے کی طرح ہجوم ہوں گے۔فلسطینی سیکیورٹی فورسز نے نیٹیویٹی چرچ کے قریب رکاوٹیں کھڑی کی ہوئی ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں حضرت عیسیٰ کی پیدائش ہوئی تھی۔صرف ایک کارکن کچرے کے ڈھیروں کو صاف کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

اس موقع پر قصبے کے میئر انٹون سلمان نے کہا کہ بیت المقدس کا پیغام ہمیشہ امن اور امید کا پیغام رہا ہے۔”ان دنوں، ہم دنیا کو اپنا پیغام بھی بھیج رہے ہیں: امن اور امید کا، لیکن اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ دنیا کو فلسطینی عوام کے طور پر ہمارے مصائب کے خاتمے کے لیے کام کرنا چاہیے۔”کرسمس کے تہوار کی روایتی سرگرمیوں کی منسوخی قصبے کی معیشت کے لیے ایک شدید دھچکا ہے۔بیت لحم کی آمدنی کا تقریباً 70 فیصد حصہ سیاحت سے حاصل ہوتا ہے۔ تقریباً ساری آمدنی کرسمس کے موسم میں ہوتی ہے۔میئر سلمان نے کہا کہ علاقے میں بیروزگاری تقریباً 50 فیصد پر منڈلا رہی ہے جو کہ مغربی کنارے کے باقی حصوں میں 30 فیصد بے روزگاری سے زیادہ ہے۔

فلسطینی وزارت سیاحت کے ترجمان جیریز قمصیہ نے بتایا کہ شہر میں کرونا کی عالمی وبا سے قبل سال 2019 میں 20 لاکھ زائرین یہاں آئے تھے۔اس کے مقابلے میں رواں سال میں زائرین کی تعداد 100,000 سے بھی کم رہی ہے۔بیت اللحم عیسائیت کی تاریخ کا ایک اہم مرکز ہے۔ تاہم، اس ارض مقدس میں پھیلے ہوئے تقریباً ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگوں کی آبادی میں مسیحی ایک چھوٹا سا حصہ ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق اسرائیل میں تقریباً 182,000 مسیحی آباد ہیں، مغربی کنارے اور یروشلم میں 50,000 جب کہ غزہ میں 1,300 عیسائیت کے پیرو کار بستے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔