’یہودی طالبان‘ قدامت پسند یہودی فرقہ ’لیو طہور‘ کون ہیں

34ba4810-c1a6-11ef-aff0-072ce821b6ab.jpg

اسرائیل سے میکسیکو، گوئٹے مالا، کینیڈا اور ترکی۔۔۔ متنازع اور انتہائی قدامت پسند یہودی فرقے ’لیو طہور‘ کے اراکین حکام سے بچنے کے لیے گذشتہ 30 برس سے زیادہ عرصے سے ایک سے دوسرے ملک کا سفر کر رہے ہیں، لیکن وہ ہمیشہ (حکام سے بچنے کی) اپنی اِن کوششوں میں کامیاب نہیں ہوتے۔گذشتہ ہفتے حکام نے گوئٹے مالا شہر سے 60 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع قصبے ’اوراتوریو‘ سے اس متنازع یہودی فرقے کی ایک بستی سے 160 افراد کو بازیاب کروایا ہے۔واضح رہے کہ رواں برس نومبر میں اِسی بستی سے چار نابالغ بچے بھاگ نکلنے میں کامیاب رہے تھے اور ان کی جانب سے فراہم کردہ اطلاعات کی بنیاد پر اب حکام نے یہاں چھاپہ مارا ہے۔گوئٹے مالا کے پبلک پراسیکیوٹر آفس نے انسانی سمگلنگ، زبردستی حمل ٹھہروانے اور نابالغوں سے ریپ کرنے جیسے متعدد جرائم کے خدشات کے پیش نظر اس یہودی فرقے کے خلاف کی گئی اپنی اس کارروائی کا دفاع کیا ہے۔اس بستی کی تلاشی کے دوران حکام کو ’ڈبوں سے ہڈیاں‘ بھی ملی ہیں تاہم پراسیکیوٹرز کے مطابق حتمی نتائج آنے تک اس بارے میں مزید معلومات فراہم نہیں کی جا سکتی ہیں۔اس فرقے نے اپنے اوپر عائد کیے گئے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے گوئٹے مالا حکام کی اس کارروائی کو "مذہب کی بنیاد پر ظلم” قرار دیا ہے۔واضح رہے کہ سنہ 2016 میں مائیان گاؤں میں مقامی افراد کے ساتھ تنازعات کی وجہ سے یہ فرقہ اوراتوریو نامی قصبے میں آ کر بس گیا تھا۔اس یہودی فرقے کے ارکان کو ’یہودی طالبان‘ کہا جاتا ہے کیونکہ اِن کی عورتیں سر سے پاؤں تک کالے برقعے میں ملبوس ہوتی ہیں۔تاہم میکسیکو اور گوئٹے مالا جیسے لاطینی امریکی ممالک میں موجود اس مذہبی گروہ کے بارے میں تنازع اُن کے انتہائی قدامت پسند لباس سے کہیں بڑھ کر ہے۔اس فرقے کا مرکز میکسیکو کے تاپاچولا شہر سے 17 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔

صحافی رافی برگ سنہ 2018 میں دو نابالغ بچوں کے اغوا کے ایک مقدمے کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اُن بچوں کو ان کی ماں گوئٹے مالا میں آباد اس فرقے کے چنگل سے آزاد کروا کر نیویارک لے گئی تھیں۔اس واقعے میں ملوث گروہ کے نو ارکان کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا۔ اُن میں سے چار کو سزائیں ہو چکی ہیں جن میں فرقے کے بانی نکمین ہیلبرانز کا بیٹا بھی شامل ہے۔ان دو کم سن بچوں کو امریکہ سے اغوا کیا گیا تھا اور جنوری 2019 میں انھیں بازیاب کروایا جا سکا تھا۔ نکمین ہیلبرانز بچوں کی ماں کا بھائی یعنی بچوں کا ماموں ہے۔اُس وقت صحافی کو گوئٹے مالا میں اس فرقے تک خصوصی رسائی حاصل ہوئی تھی اور اس کے ایک رکن نے پہلی بار ان مقدمات کے بارے میں بات کی جن میں وہ ملوث رہے اور الزام لگایا تھا کہ لیو طہور کو ’اس کے نظریات کی وجہ سے سیاسی ظلم و ستم کا سامنا ہے۔‘وسطی امریکی ملک کے جنوب مشرق میں واقع سانتا روزا میں رہنے والے اس فرقے کے 350 افراد کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’فرقے پر اغوا کا الزام لگایا گیا لیکن یہ کبھی بھی ثابت نہیں ہوا۔‘ صحافی اینا گیبریلا روزجاس کے مطابق اسرائیل میں 1980 کی دہائی میں اس فرقے کے قیام کے بعد سے یہ اتتہائی راسخ العقیدہ یہودی فرقہ امریکہ، کینیڈا، میکسیکو اور گوئٹے مالا میں موجود رہا اور ان ممالک میں بچوں کے جنسی استحصال، کم عمری میں شادیاں اور اغوا جیسے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔

انتہائی راسخ العقیدہ اور صہیونی مخالف

عبرانی زبان میں لیو طہور ’پاک دل‘ کو کہتے ہیں اور اس فرقے کی بنیاد سنہ 1980 میں یروشلم میں راہب شلومو ہلبرانس نے رکھی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق اس فرقے کے 250 سے 500 ارکان ہیں۔یہ فرقہ یہودی مذہب کے ایک صوفیانہ سلسلے کی پیروی کرتا ہے اور اپنے ماننے والوں پر کڑی مذہبی پابندیاں عائد کرتا ہے۔اس فرقے کی خواتین ہمیشہ سر سے پاؤں تک کالا لباس پہنتی ہیں اور کبھی اپنا چہرہ بے پردہ نہیں رکھتیں جبکہ اس فرقے کے مرد بھی ہمیشہ کالے رنگ کا لباس، سروں پر کالی ٹوپیاں پہنتے ہیں اور کبھی اپنی داڑھی نہیں مونڈتے۔ان کی خوراک ایسی غذا پر مبنی ہے جو مقدس کتاب کے اصولوں کے مطابق حلال یا جائز ہیں جنھیں یہودیت کے ماننے والے کھا سکتے ہیں تاہم یہ خوراک کے معاملے میں بھی انتہائی سخت ہیں اور زیادہ تر ان کا کھانا گھر کا پکا ہوتا ہے اور اس میں قدرتی اور خالص اجزا شامل ہوتے ہیں۔

وہ مرغی کا گوشت یا انڈا نہیں کھاتے کیونکہ اُن کے خیال میں اس میں جنیاتی طور پر رد و بدل کیا گیا ہے۔ اس کی جگہ وہ بطخ اور اس کے انڈے کھاتے ہیں۔ وہ چاول، ہرا پیاز اور پتوں والی سبزیاں بھی کیڑوں کے ڈر سے نہیں کھاتے۔دیگر پھلوں اور سبزیوں کو استعمال کرتے وقت وہ ہمیشہ کھانے سے پہلے اس کا چھلکا اتار دیتے ہیں حتی کہ ٹماٹر کا چھلکا بھی اتار کر استعمال کرتے ہیں۔مشروبات میں وہ صرف گائے کا دودھ پیتے ہیں وہ بھی اس گائے کا جس کا دودھ وہ خود دھو سکتے ہیں اور وہ اپنی شراب بھی خود کشید کرتے ہیں۔ان کے بچے دکانوں سے ملنے والی ٹافیاں نہیں کھا سکتے البتہ وہ گھر کی بنی ہوئی مٹھایاں یا چاکلیٹ، پھل یا میوے کھا سکتے ہیں۔ وہ ٹیکنالوجی کا انتہائی کم استعمال کرتے ہیں اور وہ ٹی وی اور کمپیوٹر سمیت برقی آلات کے استعمال سے اجتناب کرتے ہیں۔

دوسری طرف وہ یہودی فرقہ ہونے کے باوجود ان کے سیاسی نظریات صہیونیوں سے مختلف ہیں اور انھیں یہ خطرہ ہے کہ اسرائیل میں یہودی مذہب کی جگہ ایک سیکولر قومیت اختیار کرے گی۔اپنی انتہائی سخت عقائد اور موقف کے باوجود، اس فرقے کے ارکان کا ماننا ہے کہ وہ مکمل طور پر یہودی مذہبی روایات اور اصولوں کی حدود میں رہتے ہوئے کام کرتے ہیں اور درحقیقت اُن کے کاموں میں کوئی نئی یا مختلف چیز نہیں۔اسرائیل اخبار ’ہیریٹز‘ کے صحافی شایے فوگلمین جنھیں سنہ 2012 میں لیو طہور فرقے کے ارکان کے ساتھ پانچ دن گزارنے کا نادر موقع ملا تھا، نے لکھا تھا کہ ’وہ (لیو طہور کے اراکین) اپنے بارے میں سمجھتے ہیں کہ وہ ہی حق کے راستے پر ہیں، وہ ہی مقدس دیواروں کے محافظ اور یہودی دنیا میں باقی بچنے والی آخری شمع کا دفاع کرنے والے ہیں۔ انھیں یہودی عقیدے ہاثیدازم کے دیگر فرقوں سے شدید اختلاف ہے اور انھیں وہ قابل نفرت قرار دیتے ہیں۔لیو طہور فرقے کے ارکان کے بنیادی مطالبات بہت سادہ ہیں۔ پورے دل سے ہر وقت خدا کی عبادت اور خدمت کرنا۔ ان کی لائبریریوں میں صرف یہودی مذہب سے متعلق کتابیں موجود ہیں۔ ان کے گھروں میں نہ تو ٹیلی ویژن ہیں، نہ ریڈیو اور نہ ہی کمپیوٹرز۔ ان کے لیے فارغ وقت گزارنے، اپنے سوچ کا دائرہ وسیع کرنے یا اپنے آپ کو بہتر بنانے جیسے مغربی خیالات کی کوئی گنجائش نہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان کے گھروں کی دیواروں پر کچھ بھی آویزاں نہیں ہوتا، نہ کوئی تصاویر، تعویذ یا راہبوں کی تصاویر۔ متعدد مرتبہ سجاوٹ کی اشیا میں موم بتی سٹینڈ یا چاندی کی مذہبی اہمیت کی اشیا موجود ہوتی ہیں جو شیشے کے ڈبے میں رکھی جاتی ہیں۔‘ایسی تفصیلات جن سے اس فرقے کا مذہب سے لگاؤ عیاں ہوتا ہے وہیں گذشتہ برسوں کے دوران ایسے الزامات بھی سامنے آئے ہیں جن میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس برادری کی جانب سے اپنے اراکین پر پُرتشدد اور شدت پسند اقدامات کا استعمال بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ان میں بچوں پر تشدد اور کم عمر لڑکیوں کی عمر رسیدہ مردوں سے زبردستی شادیاں کروانا بھی شامل ہیں۔یہ الزامات اس فرقے کے سابقہ اراکین اور ان کے خاندانوں کی جانب سے عائد کیے گئے ہیں۔اوبادیا گزمین نے بتایا کہ ’اس برادری پر کم عمر بچوں کے درمیان شادیوں کو فروغ دینے کا بھی الزام ہے لیکن ہم نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ یہ ایک ذاتی معاملہ ہے۔ اگر کسی کو ایسا لگتا ہے کہ وہ نئی زندگی کا آغاز کرنے کے لیے تیار ہے اور مذہبی عقائد کے مطابق گزارنے کے قابل بھی ہے تو یہ اس کا اپنا ذاتی فیصلہ ہے۔ شادی کرنے کے حق سے کسی کو نہیں روکا جا سکتا۔

تنازع اور بے دخلی

سنہ 1990 میں راہب شلومو ہیلبرانز نے اس گروہ کو امریکہ منتقل کر دیا تھا جہاں انھوں نے بروکلن میں ایک یہودی سکول قائم کیا۔کچھ برس بعد لیو طہور کو قانون طور پر پہلی مرتبہ مشکلات کا سامنا ہونے لگا۔سنہ 1993 میں راہب شلومو ہیلبرانز کو نیویارک میں ایک کم عمر لڑکے کو اغوا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا جو ان سے تعلیم حاصل کر رہے تھے اور دائرہ مذہب میں داخل ہونے کی تقریب کے لیے تیاری کر رہے تھے۔بچے کے والدین نے راہب پر الزام عائد کیا کہ انھوں نے لڑکے کا ’برین واش‘ کیا جب راہب نے ان پر بچے کو تشدد کا نشانہ بنانے الزام لگایا۔آخر میں عدالت نے راہب ہیلبرانز کو اغوا کرنے کے الزام میں سزا سنائی اور انھوں نے دو سال جیل میں گزارے اور پھر سنہ 1996 میں انھیں پیرول پر رہا کیا گیا۔

سنہ 2000 میں راہب کو اسرائیل منتقل کر دیا گیا تھا جہاں وہ زیادہ عرصہ نہیں رکے بلکہ جلد ہی اپنی برادری کے ساتھ کیوبیک، کینیڈا چلے گئے۔یہ فرقہ پھر سینٹ اگاتھ منتقل ہو گیا۔ سینٹ اگاتھ دراصل 10 ہزار رہائشیوں پر مشتمل چھوٹا سا قصبہ ہے جو مونٹریال سے دو گھنٹوں کی مسافت پر واقع ہے۔تاہم وہاں بھی گروہ کے خلاف نئے اعتراضات سامنے آئے جس پر سنہ 2013 میں سوشل سروسز کی جانب سے بچوں کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔مقامی میڈیا کے مطابق کینڈین حکام کو بچوں کے حفظانِ صحت اور صحت کے بارے میں خدشات تھے۔ اس کے علاوہ ان کی تعلیم کے بارے میں بھی کیونکہ ان بچوں کو گھروں میں تعلیم دی جا رہی تھی اور انھیں ریاضی کے حوالے سے بنیادی مہارت حاصل نہیں ہو رہی تھی۔اس کے کچھ عرصے بعد فرقے کے کچھ اراکین نے ملک چھوڑ کر مائنز کے قصبے گوائٹے مالا میں رہائش پذیر ہونے کا اہتمام کیا۔یہاں بھی انھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور انھیں چند ماہ کی غلط فہمیوں کے بعد ایک کونسل نے اس گروپ کو نکالنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس کے اراکین نے مقامی افراد کے ساتھ گھومنے پھرنے اور ان سے بات کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔

کونسل کے رکن مگویل واسکیز چولٹویو نے کہا کہ ہمیں گلیوں میں چلتے پھرتے وقت ان سے خوف آتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارا مذہب اور طور اطوار تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ان کی بے دخلی کے بعد مقامی حکام نے انھیں ایک مخصوص وقت دیا اور یہ دھمکی بھی دی کہ اگر وہ فوری طور پر نہ گئے تو ان کی عوامی سروسز تک رسائی کاٹ دی جائے گی۔اس فرقے کی جانب سے گوئٹے مالا شہر منتقل ہونے کا فیصلہ کیا گیا جہاں اس کے ہیڈکوارٹر پر بعد میں سرکاری وکلا کی جانب سے چھاپا مارا گیا تھا جو یہ تفتیش کر رہے تھے کہ آیا وہاں پر بچوں کے ساتھ تشدد و ہراسانی کے کیسز موجود ہیں یا نہیں۔سنہ 2016 میں انھوں نے ایل اماتیلو نامی قصبے میں منتقل ہونے کا فیصلہ کیا جو گوائٹے مالا شہر سے 80 کلومیٹر دور ہے۔ایک سال بعد اسرائیلی میڈیا نے راہب ہیلبرانز کی موت کی خبر شائع کی، جو مبینہ طور پر میکسیکو کے ایک دریا پر مذہبی فریضہ ادا کرتے ہوئے ہوئی۔ اس موقع پر اس فرقے کی جانب سے ایک اور ملک میں منتقل ہونے کے مبینہ منصوبے کے بارے میں بھی پتا چلا۔تاہم اس فرقے کو قائم کرنے والے راہب ہیلبرانز کی موت اور ان کے نئے سربراہ کو بچوں کو اغوا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا، اس لیے لیو طہور کا مستقبل مزید تاریک دکھائی دے رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے