پی ٹی اے کا وی پی اینز کی رجسٹریشن کیلئے نئی لائسنسنگ کیٹیگری متعارف کرانے کا فیصلہ

2409154778502f9.jpg

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (وی پی این) کی رجسٹریشن کے حوالے سے سابقہ کوششوں کے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہونے کے بعد نئی حکمت عملی وضع کرلی۔ رپورٹ کے مطابق پی ٹی اے نے ایک نئی لائسنسنگ کیٹیگری متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت کمپنیاں وی پی این کی خدمات کی فراہمی کے لیے اجازت نامے کی درخواست دے سکیں گی۔اس اقدام سے بالآخر غیر رجسٹرڈ وی پی اینز کا مسئلہ حل ہوجائے گا، کیونکہ لائسنس یافتہ کمپنیوں کے ذریعے فراہم کردہ پراکسیز کے علاوہ تمام وی پی اینز کو غیر رجسٹرڈ اور بلاک سمجھا جائے گا۔لائسنس یافتہ سروس فراہم کنندگان کی مدد سے حکام وی پی این ٹریفک کی نگرانی کر سکیں گے، کیونکہ پراکسی نیٹ ورکس کی طرف سے فراہم کردہ گمنامی حکام کی سب سے بڑی مشکل میں سے ایک ہے۔

ایک حالیہ پریس ریلیز میں پی ٹی اے نے کہا کہ اس نے پاکستان میں خدمات فراہم کرنے والوں کو ڈیٹا خدمات کے لیے کلاس لائسنس کی فراہمی دوبارہ شروع کردی ہے۔پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ’وی پی این سروس فراہم کنندگان کو وی پی این اور متعلقہ خدمات کی فراہمی کے لیے ڈیٹا کا کلاس لائسنس (ڈیٹا سروسز) حاصل کرنا ہوتا ہے‘۔پی ٹی اے پہلے ہی انٹرنیٹ، سیلولر خدمات اور گاڑیوں میں ٹریکر نصب کرنے والی کمپنیوں کو لائسنس جاری کرتا ہے، اب پی ٹی اے نے لائسنس یافتہ سروسز کے تحت وی پی این کی ایک نئی کیٹیگری شامل کی ہے۔اس منصوبے میں کہا گیا ہے کہ مقامی کمپنیاں جو پاکستان کے قوانین، اپنے لائسنس کی شرائط اور ریگولیٹری دفعات کی پابند ہیں، صارفین کو پراکسی خدمات فراہم کریں گی۔ایسے میں جب زیادہ تر وی پی این فراہم کنندہ کمپنیاں غیر ملکی ہیں، اس منصوبے کی مدد سے پی ٹی اے ان کمپنیوں کو زیادہ موثر انداز میں کنٹرول کر سکے گا۔

نئے نظام کی ضرورت

مقامی وی پی این سروس فراہم کنندگان کا خیال پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن (پاشا) کی جانب سے پیش کیا گیا تھا، جو آئی ٹی اور اس سے متعلقہ خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم ہے۔پاشا کے چیئرمین سجاد سید نے کہا کہ ’ہم نے پی ٹی اے اور آئی ٹی کی وزارت کو بتایا ہے کہ ملک میں تقریباً 25 لاکھ فری لانسرز ہیں ، جن میں سے بیشر خواتین ہیں جو صرف چھوٹے آئی ٹی ایکسپورٹ منصوبوں کے ذریعے خاندانی آمدنی میں اضافہ کر رہی ہیں، کے لیے ہمیں ایک بین الاقوامی ماڈل کی ضرورت ہے‘۔انہوں نے مزید کہا کہ وی پی این سروس فراہم کنندگان پی ٹی اے کو لائسنس فیس ادا کریں گے، لائسنس یافتگان اپنے وی پی این صارفین کو فروخت کریں گے، بالکل اسی طرح جیسے سیلولر کمپنیاں اور انٹرنیٹ سروس پروائڈرز (آئی ایس پیز) اپنی خدمات فروخت کرتے ہیں۔اگر کوئی صارف ایک وی پی این فراہم کنندہ کی خدمات سے مطمئن نہیں ہے تو وہ کسی اور کی طرف منتقل ہوسکتا ہے۔

سجاد سید نے مزید کہا کہ ’اس کے علاوہ، حکومت مقامی وی پی این صارفین کے مواد کی نگرانی کر سکتی ہے، اور اس طرح وی پی این سے متعلق سیکیورٹی خدشات کو بھی دور کیا جا سکتا ہے‘۔کمپنیوں کو ملک بھر میں وی پی این خدمات فراہم کرنے کے لیے لائسنس فیس کی مد میں 3 لاکھ روپے اور صوبے میں خدمات کے لیے ایک لاکھ روپے ادا کرنے ہوں گے۔یہ لائسنس 15 سال تک کارآمد ہوں گے اور میعاد ختم ہونے پر اسی مدت کی ایک اور مدت کے لیے توسیع کی جاسکتی ہے۔

نگرانی

پی ٹی اے کی ویب سائٹ پر دستیاب دستاویزات کے مطابق موجودہ سروس فراہم کنندگان کے لائسنس کی شرائط کا اطلاق وی پی این سروسز فراہم کرنے والی کسی بھی کمپنی پر بھی ہوگا۔ان شقوں میں سے ایک میں کہا گیا ہے کہ کمپنی اتھارٹی (پی ٹی اے) کی خواہش کے مطابق تمام معلومات فوری طور پر فراہم کرے گی جس سے اسے تکنیکی، ریگولیٹری یا مالی نوعیت کی ٹیکنالوجیز یا خدمات کے پھیلاؤ کی پیمائش کرنے میں مدد ملتی ہے۔یہ شرائط لائسنس یافتہ کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن (ری آرگنائزیشن) ایکٹ 1996 اور دیگر قوانین کی تعمیل کا پابند کرتی ہیں اور کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں قانون کے مطابق کارروائی ہوسکتی ہے۔ایک اور شق میں کہا گیا ہے کہ قومی سلامتی کی بنیاد پر’لائسنس یافتہ اور / یا سروس فراہم کنندہ کو لائسنس یافتہ کے اپنے خرچ پر قومی طور پر مجاز سیکیورٹی اداروں کو قانونی مداخلت کے آلات فراہم کرنا ہوں گے’۔

رواں سال کے اوائل میں ڈان نے خبر دی تھی کہ اسی طرح کا نگرانی کا نظام ٹیلی کام کمپنیوں کی جانب سے پہلے ہی نصب کیا جا چکا ہے کیونکہ وہ بھی پی ٹی اے لائسنس یافتہ ہیں۔اس نظام کی تفصیلات اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران سامنے آئیں۔عدالت کو بتایا گیا کہ کسی بھی ٹیلی کام صارف کے ڈیٹا کی نگرانی کی جاسکتی ہے اور اسے برآمد کیا جاسکتا ہے، وائس کالز سنی اور دوبارہ سنی جاسکتی ہیں اور ایس ایم ایس پڑھے جاسکتے ہیں۔ لائسنسوں کی شقیں ان کمپنیوں کو اس بات کو یقینی بنانے کا پابند کرتی ہیں کہ ان کے مجموعی صارفین میں سے 2 فیصد کی قانونی انٹرسیپٹ مینجمنٹ سسٹم (ایل آئی ایم ایس) کے ذریعے نگرانی کی جا سکے۔

لائسنس کی یہ شقیں اگر وی پی این فراہم کنندگان پر لاگو کی جائیں تو یہ پراکسی نیٹ ورکس کے مقصد یعنی گمنامی کی نفی کردیں گی۔تکنیکی ماہرین نے دلیل دی ہے کہ یہ نئی اسکیم ایک ’بیکار مشق‘ ہے کیونکہ یہ حکام کو ضرورت سے زیادہ نگرانی کے اختیارات فراہم کرتی ہے۔وائرلیس اینڈ انٹرنیٹ سروس پرووائیڈرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے چیئرمین شہزاد ارشد نے کہا کہ یہ پہلے ہی اعلان کیا جا چکا ہے کہ حکام، مقامی وی پی این ز کی سرگرمیوں کی نگرانی کر سکتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ وی پی این کے استعمال کو روکا نہیں جاسکتا اور اگر کچھ پراکسیز کو بلاک کیا جاتا ہے تو لوگ متبادل کی طرف منتقل ہوجائیں گے کیونکہ عوام کے لیے پہلے سے ہی متعدد آپشن دستیاب ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے