پاکستان پولیو وائرس کے خاتمے میں کامیاب کیوں نہیں ہو سکا؟
بلوچستان میں پولیو کا ایک اور کیس سامنے آگیا جس کے بعد پولیو کیسز کی مجموعی تعداد 65 ہوگئی۔حکام کے مطابق بلوچستان کے ضلع قلعہ عبداللہ میں ڈیڑھ سال کا بچہ پولیو سے متاثر ہوا جس کے بعد ملک بھر میں پولیو کیسز کی مجموعی تعداد 65 ہوگئی ہے۔یاد رہے کہ پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں اب بھی پولیو وائرس کا خاتمہ نہیں ہو سکا اس حوالے سے بصیر میڈیا ٹیم نے مختلف ذرائع سے پولیو کے حوالے سے ایک رپورٹ مرتب کی ہے
پاکستان پولیو پروگرام کے ترجمان ضیاء الرحمان کا کہنا ہے کہ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ اگر 99 بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں اور صرف ایک بچہ رہ جائے تو یہ وائرس گندے پانی کے ذریعے دوبارہ ماحول میں داخل ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں ویکسین شدہ بچے بھی وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔پولیو کے خاتمے میں خلا کہاں ہیں؟ضیاء الرحمان نے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں پولیو کیسز میں مسلسل اضافے کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں۔ گزشتہ دہائی، خاص طور پر پچھلے سال، ملک میں سکیورٹی کی صورتحال نے پولیو مہمات کو شدید متاثر کیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ خطرات والے علاقوں میں یا تو ویکسینیشن مہم شروع نہیں کی جا سکی یا یہ اپنے اہداف تک نہ پہنچ سکی، جس سے مسئلہ مزید سنگین ہو گیا۔
بلوچستان کے ایمرجنسی آپریشن سینٹر کے صوبائی کوآرڈینیٹر انعام الحق قریشی نے بتایا کہ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ آپریشنل اور انتظامی چیلنجز ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مسائل ایسے حالات پیدا کرتے ہیں جو وائرس کو برقرار رہنے اور پھیلنے دیتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ سال دو ہزار چوبیس انتخابات کا سال ہے، جس کی وجہ سے حکومت کی توجہ سیاسی منتقلی پر مرکوز ہوگئی ہے۔ اس صورتحال نے پولیو مہم پر منفی اثر ڈالا۔ قریشی کے مطابق اسٹیک ہولڈرز کے درمیان خوش فہمی کے احساس نے بھی مسائل پیدا کیے، کیونکہ انہوں نے یہ فرض کر لیا تھا کہ وائرس کا خاتمہ ہو چکا ہے۔
سندھ میں ایمرجنسی آپریشن سینٹر کی ترجمان ڈاکٹر شمائلہ رسول نے کہا کہ سرحد پار نقل و حرکت ایک بڑا چیلنج ہے۔ پاکستان افغانستان کے ساتھ غیر محفوظ سرحد رکھتا ہے، جہاں پولیو وائرس موجود ہے، اور یہ وائرس ان علاقوں میں منتقل ہو رہا ہے۔ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر راولپنڈی ڈاکٹر جواد خالد نے کہا کہ کچی آبادیوں میں حفظان صحت کے بارے میں آگاہی کی کمی پولیو کے پھیلاؤ کا ایک بڑا سبب ہے۔ ان علاقوں میں بچے اکثر گندے نالوں کے قریب کھیلتے ہیں اور ہاتھ دھوئے بغیر کھانے پینے کی عادت رکھتے ہیں، جس سے وائرس کے پھیلنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
خطرے والی تحصیل
خیبر پختونخوا میں پولیو کے خاتمے کے پروگرام کے ایڈیشنل سیکرٹری عبدالباسط کے مطابق، اس سال صوبے میں پولیو کے اٹھارہ کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں سے نو کیسز ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی درازنده تحصیل سے سامنے آئے۔درازنده میں خاص حالات کے باعث پولیو مہم نہیں چلائی جا سکی، جس کی وجہ سے یہ علاقہ زیادہ خطرے کا شکار ہے۔عبدالباسط نے وضاحت کی کہ انسداد پولیو کے قطرے نہ پلائے جانے کی وجہ سے بچوں کا مدافعتی نظام کمزور رہتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں سب سے بڑا چیلنج خاص طور پر جنوبی علاقوں میں، بعض علاقوں تک رسائی نہ ہونا ہے۔ اس کی وجہ سے پچاس فیصد کیسز صرف تحصیل درازنده سے رپورٹ ہوئے ہیں۔
انسداد پولیو کی صورتحال
پاکستان انسداد پولیو پروگرام کے اعداد و شمار کے مطابق 2015 میں 54 کیسز، 2016 میں 20، 2017 میں 8، 2018 میں 12، جبکہ 2019 میں 147 کیسز رپورٹ ہوئے، جو ایک دہائی میں سب سے زیادہ تھے۔ 2020 میں 84 اور 2021 میں صرف 1 کیس رپورٹ ہوا، تاہم 2022 میں 20 کیسز اور 2023 میں 6 کیسز ریکارڈ ہوئے۔2024ء تک ملک بھر میں پولیو کے کیسز تیزی سے بڑھ کر 63 تک پہنچ گئے۔ بلوچستان میں 26 کیسز، کے پی میں 18 اور سندھ میں 17 کیسز رپورٹ ہوئے۔
مسئلے کا حل کیا ہے؟
پولیو پروگرام کے ترجمان ضیاء الرحمان نے اس بات پر زور دیا کہ پولیو کا خاتمہ اسی وقت ممکن ہے جب ہر مہم کے دوران ملک کے ہر بچے کو انسداد پولیو کے قطرے پلائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو پولیو فری سٹیٹس حاصل کرنے کے لیے مسلسل اور وسیع پیمانے پر ویکسینیشن ضروری ہے۔عبدالباسط نے نشاندہی کی کہ ڈبلیو پی بی ون وائرس کے خاتمے کے لیے ہر زاویے سے جامع اقدامات کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر جواد خالد نے حفظان صحت کے طریقوں کو بہتر بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ پولیو مہمات کتنی ہی موثر کیوں نہ ہوں، جب تک بنیادی صحت اور صفائی کے مسائل حل نہیں کیے جاتے، پولیو کا خاتمہ ایک چیلنج رہے گا۔ ان کے مطابق، ویکسینیشن کی کامیابی تبھی ممکن ہے جب ماحولیاتی نمونے پولیو وائرس کے لیے منفی ہوں۔
سندھ سے ڈاکٹر شمائلہ فاروق نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان رابطہ مہمات کو بیک وقت شروع کرنے کی تجویز دی۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے تعاون سے ہی بہتر نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔شمائلہ رسول نے شہری اور دیہی علاقوں میں برابر نگرانی کی ضرورت پر زور دیا، کیونکہ زیادہ تر کیسز دور دراز علاقوں سے رپورٹ ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے حالیہ کیسز، خاص طور پر سجاول جیسے علاقوں سے، ایسے بچوں کے ہیں جو غذائی قلت کا شکار تھے، کمزور مدافعتی نظام رکھتے تھے، اور طویل عرصے سے بیماری کا سامنا کر رہے تھے۔ڈاکٹر شمائلہ رسول نے نمائندی سے بات کرتے ہوئے زور دیا کہ انسداد پولیو مہم کے ساتھ ساتھ بچوں کو معمول کے حفاظتی ٹیکے دینا بھی بے حد ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں کوششوں کو یکجا کرنے سے ہی ملک پولیو وائرس سے مؤثر طریقے سے نمٹ سکتا ہے۔
امید ابھی باقی ہے
پولیو پروگرام کے ترجمان ضیاء الرحمان کے مطابق پاکستان میں پولیو کے مقامی وائرس کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ اس وائرس کا آخری کیس نومبر دو ہزار تئیس میں کلسٹر وائی بی تھری سی سے رپورٹ ہوا تھا۔ تاہم افغانستان سے منسلک ایک اور وائرس، خصوصاً کلسٹر وائی بی تھری اے، پاکستان میں پھیل رہا ہے، جو تشویش کا باعث ہے۔پولیو کوآرڈینیٹر عبدالباسط نے کہا کہ تین سال قبل ملک میں پولیو وائرس کی پندرہ اقسام گردش کر رہی تھیں۔ آج صرف ایک قسم فعال ہے، جبکہ باقی چودہ اقسام کو کامیابی سے ختم کر دیا گیا ہے۔