بنگلہ دیش کا بھارت سے ایک بار پھر حسینہ واجد کی حوالگی کا مطالبہ

23174711fd60cad.jpg

بنگلہ دیش نے بھارت سے ’عدالتی عمل آگے بڑھانے کے لیے‘ سابق وزیراعظم حسینہ واجد کی حوالگی کا مطالبہ دہرایا ہے۔حسینہ واجد اگست میں طلبہ کے احتجاج کے نتیجے میں اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد نئی دہلی فرار ہوگئی تھیں۔ خبر رساں اداروں کے مطابق بنگلہ دیش کے انسداد بدعنوانی کمیشن نے کہا کہ کمیشن نے روسی کی حمایت سے بننے والے جوہری بجلی گھر کے سلسلے میں حسینہ اور ان کے خاندان کی جانب سے 5 ارب ڈالر کی خورد برد کے الزامات کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔توحید حسین نے دونوں ممالک کے درمیان سفارتی خط و کتابت کا حوالہ دیتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ ہم نے بھارتی حکومت کو ایک نوٹ بھیجا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت چاہتی ہے کہ حسینہ واجد کو عدالتی عمل کے لیے یہاں واپس لایا جائے۔توحید حسین نے یہ واضح نہیں کیا کہ عدالتی عمل کا کس سے تعلق ہے۔اس معاملے پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا بھارت کی وزارت خارجہ اور حسینہ واجد کے صاحبزادے سجیب جوئے نے فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔

سابق وزیراعظم کے علاوہ سجیب جوئے اور حسینہ واجد کی بھتیجی ٹیولپ صدیق بھی کمیشن کی تحقیقات کا سامنا کر رہی ہیں۔یہ الزامات حسینہ واجد کے سیاسی مخالف نیشنلسٹ ڈیموکریٹک موومنٹ پارٹی کے چیئرمین بوبی حجاج کی جانب سے ہائی کورٹ میں دائر کی گئی ایک رٹ کے میں عائد کیے گئے تھے، بوبی حجاج نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ہم اپنی عدالت کے ذریعے انصاف چاہتے ہیں۔یہ اہم الزامات 12.65 ارب ڈالر کے روپ پور نیوکلیئر پلانٹ کی فنڈنگ سے متعلق ہیں، جو کسی جنوبی ایشیائی ملک میں پہلا نیوکلیئر پلانٹ ہے، ماسکو اس کے لیے 90 فیصد قرض دے رہا ہے۔کمیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ حسینہ واجد اور ان کے اہل خانہ پر الزام ہے کہ انہوں نے ملائیشیا میں مختلف آف شور بینک اکاؤنٹس کے ذریعے روپ پور پلانٹ سے 5 ارب ڈالر کی خورد برد کی ہے۔کمیشن نے کہا کہ اس کی تحقیقات پلانٹ کی ’زیادہ قیمت کی تعمیر سے متعلق مشکوک خریداری کے طریقوں‘ کا جائزہ لے رہی ہیں۔

کمیشن نے کہا کہ کک بیکس، بدانتظامی، منی لانڈرنگ اور اختیارات کے ممکنہ غلط استعمال کے دعوے منصوبے کی سالمیت اور عوامی فنڈز کے استعمال کے بارے میں اہم خدشات پیدا کرتے ہیں، بدعنوانی کے الزامات میں بے گھر افراد کے لیے ایک سرکاری عمارت کی اسکیم سے رقم کی چوری بھی شامل ہے۔77 سالہ حسینہ واجد 5 اگست کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے فرار ہو کر بھارت میں جلاوطنی اختیار کر گئی تھیں، جس کے بعد بہت سے بنگلہ دیشی شہریوں میں غصہ پایا جاتا ہے، کیوں کہ حسینہ واجد کو مبینہ طور پر ’اجتماعی قتل‘ کے الزام میں مقدمے کا سامنا ہے۔اس معاملے پر تبصرے کے لیے حسینہ سے رابطہ ممکن نہیں ہوسکا۔برطانوی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق ٹیولپ صدیق نے خود پر لگائے غبن کا الزام مسترد کیا ہے۔امریکا میں موجود سجیب جوئے بھی تبصرے کے لیے دستیاب نہیں ہوسکے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔