طاقت کے توازن میں تبدیلی، شام میں "کرد” دھڑے مشکل کا شکار

2143945-1976564182.jpg

شام کے شمال میں ترکیہ کے حمایت یافتہ مخالف گروہوں کے کردوں کے خلاف متحرک ہونے کے ساتھ اور دمشق میں انقرہ کے دوست گروپ کی حکومت کے قیام کے بعد شام کے اہم کرد دھڑے بیک فٹ پر ہیں، کیونکہ وہ 13 سال کی جنگ کے دوران حاصل کیے گئے سیاسی فوائد کو محفوظ رکھنے کی کوشش میں ہیں۔خبر رساں ادارےکے مطابق عراق، ایران، ترکیہ، آرمینیا اور شام میں پھیلے ہوئے بے وطن کرد اب تک شامی تنازعے کے چند فاتحین میں شامل رہے ہیں، جو ملک کے تقریباً ایک چوتھائی حصے پر قابض ہیں اور ایک طاقتور مسلح گروپ کی قیادت کر رہے ہیں جو کہ امریکہ کا اہم اتحادی ہے۔

لیکن دو تجزیہ کاروں اور ایک سینیئر مغربی سفارت کار کا کہنا ہے کہ اس مہینے میں اسلام پسند گروپ ھیتہ التحریر الشام کے دمشق میں داخل ہونے کے بعد سے طاقت کا توازن ان کے خلاف ہو گیا ہے۔شام میں آنے والی تبدیلی سے ترکیہ کو اثر و رسوخ حاصل ہونے کی توقع ہے جس طرح امریکی انتظامیہ کی تبدیلی سے یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ واشنگٹن کب تک ملک کی کرد زیرقیادت افواج کی پشت پناہی کرتا رہے گا۔ترکیہ کے لیے کرد دھڑے قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ انقرہ انہیں کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی توسیع کے طور پر دیکھتا ہے جو 1984 سے ترک ریاست کے خلاف بغاوت کر رہی ہے اور اسے ترکیہ، امریکہ اور دیگر طاقتیں ایک دہشت گرد گروپ تصور کرتی ہیں۔

امریکہ میں قائم تھنک ٹینک سینچری انٹرنیشنل کے فیلو آرون لنڈ نے کہا کہ شامی کرد گروپ ’گہری مصیبت میں ہیں۔ شام میں توازن بنیادی طور پر ترکیہ کے حمایت یافتہ یا ترکیہ سے منسلک دھڑوں کے فائدے میں بدل گیا ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ ترکیہ اس کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے پرعزم ہے۔اس تبدیلی کی عکاسی شمال پر کنٹرول کے لیے نئی لڑائی میں ہوئی ہے جہاں ترکیہ کے حمایت یافتہ مسلح گروپ جنہیں سیریئن نیشنل آرمی کے نام سے جانا جاتا ہے، نے کردوں کی زیرقیادت سیریئن ڈیموکریٹک فورسز کے خلاف فوجی پیش قدمی کی ہے۔کردوں کی زیرقیادت علاقائی انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار فانر الکیت نے کہا کہ بشارالاسد کی معزولی نے بکھرے ہوئے ملک کو ایک ساتھ جوڑنے کا موقع فراہم کیا۔انہوں نے کہا کہ ’انتظامیہ ترکیہ کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہے، لیکن شمال میں ہونے والے تنازع سے ظاہر ہوتا ہے کہ انقرہ کے ’بہت برے ارادے‘ تھے۔ یہ یقینی طور پر خطے کو ایک نئے تنازعے کی طرف دھکیل دے گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اہم خبریں

ملتان کی ثانیہ زہرا قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا، ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج محسن علی خان نے فیصلہ سنایا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مرکزی ملزم علی رضا کو سزائے موت جبکہ علی رضا کے بھائی اور والدہ کو عمر قید کی سزادی گئی، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برآمد ہوئی تھی، مدعی پارٹی کے وکلا شہریار احسن اور میاں رضوان ستار نے دلائل پیش کیے تھے۔ ثانیہ زہرا معروف عزادار متولی مسجد، امام بارگاہ، مدرسہ سید اسد عباس شاہ کی بیٹی تھیں، ملزمان کے وکیل ضیا الرحمن رندھاوا نے دلائل پیش کیے تھے، پراسکیوشن کی جانب سے ڈپٹی پراسیکیوٹر میاں بلال نے دلائل پیش کیے تھے، مرکزی ملزم مقتولہ کا شوہر علی رضا پولیس کی حراست میں عدالت میں پیش کیا گیا، مقتولہ ثانیہ زہرا کی پھندا لگی لاش گھر کے کمرے سے برامد ہوئی تھی، تھانہ نیو ملتان میں ثانیہ کے شوہر علی رضا، دیور حیدر رضا، ساس عذرا پروین سمیت چھ افراد کو مقدمہ میں نامزد کیا گیا تھا۔ مقدمہ مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا، ثانیہ زہرا قتل کیس ایک سال چار ماہ اور نو دن عدالت میں زیرسماعت رہا، ثانیہ زہرا قتل کیس میں مجموعی طور پر 42 گواہوں کی شہادتیں قلمبند کی گئیں، ثانیہ زہرا قتل کا مقدمہ تھانہ نیو ملتان میں درج کیا گیا تھا، عدالتی حکم پر ثانیہ زہرا کی قبر کشائی بھی کی گئی تھی، ثانیہ زہرا قتل کیس میں اعلیٰ پولیس افسران کی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم بنائی گئی تھی، ثانیہ زہرا کی لاش گزشتہ سال نو جولائی کو گھر کے کمرے سے ملی تھی، ثانیہ زہرا کے دو ننھے بچے بھی ہیں۔