کون دفاعی تجزيہ کار ہے، فيصلہ کون کرے گا؟

390669_355717_updates.jpg

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیمرا کا سن 2019 میں جاری کیا گیا نوٹیفیکیشن، جس کے تحت دفاعی تجزیہ کاروں کے لیے آئی ایس پی آر سے کلیئرنس کی شرط عائد کی گئی تھی، کو معطل کر دیا ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ تفصیلی فیصلہ آنے تک یہ معطل رہے گا۔پاکستان میں فوجی اسٹيبلشمنٹ کی طرف سے سیاسی اور دیگر معاملات کو کنٹرول کرنے کی کوششيں اکثر زیر بحث رہتی ہے۔ مختلف حلقے اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ فوج نہ صرف معاملات پر مکمل کنٹرول چاہتی ہے بلکہ يہ بھی کہ لوگ تمام معاملات پر وہی رائے رکھیں، جو يہ ادارہ چاہتا ہے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ 2019ء میں جاری کیے جانے والے پیمرا کے نوٹیفکیشن کے پیچھے بھی یہی سوچ کارفرما تھی۔ نوٹیفیکیشن میں يہ شرط عائد کی گئی تھی کہ دفاعی تجزیہ کار آرمڈ فورسز میں کام کا تجربہ رکھنے والے لوگ ہی ہو سکتے ہیں۔ سرکاری يا نجی ٹیلی وژن پر اظہار رائے کے ليے شامل ہونے والے دفاعی تجزيہ کاروں کا آئی ایس پی آر سے کلیئرنس لينا ضروری تھا۔

قانونی اور دفاعی ماہرین اس سوچ سے اختلاف رکھتے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) نعیم لودھی کا کہنا ہے کہ ملک کا دفاع صرف ایک فوجی معاملہ نہیں بلکہ اس کے سیاسی پہلو زیادہ ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ”ہر جنگ کے پیچھے سیاسی مقاصد ہوتے ہیں اور بہت سی جنگیں سیاسی محاذ پر لڑی جاتی ہیں۔ تو صرف عسکری حلقے ہی کیسے دفاعی معاملات پر رائے دینے کے لیے معتبر سمجھے جائیں۔نمائندہ بصیر میڈیا سے بات کرتے ہوئے نعیم لودھی بتاتے ہیں کہ پیمرا کے اس حکم کہ بعد سے انہیں بھی کبھی ٹی وی پر رائے دینے کے لیے نہیں بلایا گیا۔ ان کا مزيد کہنا ہے، ”میرے لیے رٹے رٹائے جملے بولنا ممکن نہیں، اس لیے میرا نام بھی اس لسٹ میں شامل نہيں ہے جو ٹی وی چینلز کو فراہم کی جاتی ہے اور جسے پازیٹو لسٹ کا نام دیا گیا ہے۔

نوٹیفيکیشن کی قانونی حیثیت کیا ہے؟

قانونی ماہرین کے مطابق پیمرا کا نوٹیفکیشن بنیادی طور پر ہی غلط تھا لیکن اتنا عرصہ کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ سپریم کورٹ کے وکیل عمر اعجاز گیلانی کہتے ہیں، ”آئی ایس پی آر ملٹری کا ایک ذیلی ادارہ ہے اور قانونی طار پر تو اس کا کوئی اختیار نہیں کہ وہ دفاعی تجزیہ کاروں کے بارے فیصلہ کرے کہ کون اس قابل ہے کہ وہ ان معملات پر بول سکے۔‘‘ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر یہ کیس آگے چلتا ہے تو ان معاملات کے حوالے سے آئی ایس پی آر کی قانونی حیثیت بھی زیر بحث آ سکتی ہے

دفاعی معاملات پر کون بول سکتا ہے؟

صحافی عمبر شمسی کہتی ہیں، ’’کون فیصلہ کرے گا کہ دفاعی تجزیہ کار کون ہو سکتا ہے؟ یہ ریاست کا اختیار نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی خود ساختہ دعویٰ کر سکتا ہے۔ دفاعی تجزیہ کار سول، ملٹری اور اکیڈمک لائن کے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جن کے پاس ایسے معاملات کا بنیادی علم موجود ہو اور جو بامعنی بات کر سکیں۔ تاہم، تجزیہ صرف ریاستی بیانیے پر مبنی نہیں ہو سکتا۔ ایک نیوٹرل تنقید جمہوریت کے لیے ضروری ہے۔نعیم خالد لودھی کہتے ہیں، ”دفاع چوں کہ صرف ایک فوجی معاملہ نہیں ہے اس لیے صرف فوجی ہی اس پر بات کرنے کی اہل نہیں بلکہ ملکوں کہ سفیر اور ایسے صحافی جنہوں نے ظویل عرصہ ایسے معاملات پر رپورٹنگ کی ہو، وہ بھی ایسے موضوعات پر بات کرنے کے اہل ہیں۔ ان کا کہنا تھا ”آرمڈ فورسز کے لوگ تو اکثر اوقات ایسے معاملات پر بات کرنے کے کم اہل بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ معاملے کے تمام پہلوؤں سے آگاہ نہیں ہوتے۔ صرف لڑنا ہی دفاع نہیں ہے بعض جنگیں سیاسی طار پر لڑ کر ہی جیت لی جاتی ہیں۔

کیا ہائی کورٹ کے فیصلے سے فرق پرے گا؟

ماہرین سمجھتے ہیں کہ میڈیا پر اسٹيبلشمنٹ کا مکمل کنٹرول ہے اور یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ فیصلے پر کتنا عملدرآمد ہو گا۔ نعیم لودھی کہتے ہیں کہ ایسا کوئی پراسیس نہیں ہے کہ آئی ایس پی آر کو درخواست دے کر منظوری لی جائے بلکہ آئی ایس پی آر خود سے ایک لسٹ تیار کرتی ہے اور وہ ٹی وی اسٹیشنز کو بھیج دی جاتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے