کرسمس مارکیٹ پر’ظالمانہ حملے‘ کی مذمت کرتے ہیں، جرمن چانسلر
وفاقی جرمن چانسلر اولاف شولس نے ہفتہ 21 دسمبر کو ماگڈے برگ کی اُس کرسمس مارکیٹ، جس میں جمعے کو ایک سعودی باشندے نے سیاہ بی ایم ڈبلیو سے ہجوم کو روند ڈالا تھا، کا دورہ کیا۔ جرمن چانسلر نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اس دہشت گردانہ کارروائی کو ‘خوفناک‘ ظلم قرار دیا۔ شولس نے ہلاک ہونے والوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتے ہوئے زخمیوں کی تعداد کے 200 ہونے پر تشویش کا اظہار کیا۔جرمن چانسلر نے کہا، ”کرسمس کے بازار سے زیادہ پرامن اور خوش کن جگہ کوئی نہیں ہے۔ وہاں اتنی بے دردی سے اتنے لوگوں کو زخمی کرنا اور مارنا کتنا بھیانک عمل ہے۔انہوں نے مزید کہا، ”میں، بطور چانسلر، ہر اس شخص کی بات کرتا ہوں جو اس ملک میں اپنی ہمدردی کا اظہار کرنے کی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔‘‘ شولس نے ایک بار پھر عوام سے ملک سے نفرت کے مقابلے میں متحد ہونے کی اپیل کی۔انہوں نے ماگڈے برگ میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا، ”ہمیں ایک ساتھ متحد ہو کر کھڑے ہونا چاہیے۔
اس کے بعد چانسلر نے حملے کے بعد فوری طور پر اطلاعات فراہم کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کیا، جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ” ان کی وجہ سے صورت حال بدترین ہونے سے بچ گئی ہے۔‘‘انہوں نے حملہ آور کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے قانون کی پوری طاقت استعمال کرنے کا مطالبہ کیا۔
‘حملہ آور اسلامو فوبک خیالات کا حامل ہے‘
کرسمس مارکیٹ پر حملہ کرنے والے کے بارے میں وفاقی جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر نے کہا،”جرمنی کی کرسمس مارکیٹ میں کار سے ہلاکت خیز حملے کے موقع پر گرفتار سعودی مشتبہ شخص کو ‘اسلامو فوبک‘ خیالات کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ فیزر نے کہا کہ اگرچہ وہ اس مقصد کے بارے میں قیاس آرائیاں نہیں کرنا چاہتیں، لیکن ایک چیز جس کی وہ تصدیق کر سکتی ہیں وہ یہ تھی کہ اس نے اسلامو فوبک یا اسلام دشمنی کے موقف کا اظہار کیا۔‘‘وفاقی وزیر داخلہ نینسی فیزر نے ماگڈے برگ سے موصولہ خبر کو ‘گہرا صدمہ‘ پہنچانے والی خبر قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے خیالات متاثرین اور ان کے لواحقین کے ساتھ ہیں۔ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی سے تعلق رکھنے والی ریاستی رہنما نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم X پر پیغام تحریر کرتے ہوئےجرمنی کے اعلیٰ ترین وفاقی حکام کے دفاتر پر سوگ میں جرمن پرچم سر نگوں کرنے کے احکامات جاری کیے۔ انہوں نے مزید کہا،”سکیورٹی حکام اس دہشت گردانہ واقعے کے پس منظر کی وضاحت کریں گے۔‘‘
حملہ آور کے بارے میں کیا کہا جا رہا ہے؟
مقامی میڈیا میں ماگڈے برگ کی کرسمس مارکیٹ کے ہجوم پر بی ایم ڈبلیو چڑھا دینے والے 50 سالہ سعودی کو طالب اے کہا جا رہا ہے۔ وہ نفسیات کے امراض کے ماور اور تھراپسٹ ہیں۔ حکام کے مطابق وہ دو دہائیوں سے جرمنی میں آباد ہیں۔ طالب اے کو پولیس نے موقع پر ہی گرفتار کر لیا تھا۔دہشت گردی سے متعلق امور کے ایک ممتاز تجزيہ کار پیٹر نوئمن نے ایکس پر تحریر کیا کہ جرمنی میں اب تک انہیں کسی دہشت گردانہ کارروائی میں طالب اے جیسے پروفائل والے مشتبہ شخص کے ملوث ہونے کا تجریہ نہیں ہوطالب اے کا ایکس اکاؤنٹ ایسی ٹوئيٹس اور جوابی ٹوئیٹس سے بھرا پڑا ہے جس میں وہ اسلام مخالف موضوعات اور مذہب پر تنقید شیئر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ نیز مسلمعقیدہ چھوڑنے والے مسلمانوں کو مبارکباد پیش کرتے اور خود کو ایک سابق مسلمان بتاتے ہیں۔ طالب اے نے اپنی ٹوئیٹ میں جرمن حکام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ ”یورپ میں اسلام پرستی یا اسلامیت‘‘ کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔طالب اے جرمنی کی انتہائی دائیں بازو اور تارکین وطن مخالف سیاسی جماعت (AfD) پارٹی کی کھل کر حمایت کرتے ہیں۔کچھ لوگوں نے طالب اے کو ایک ایسا کارکن قرار دیا ہے جس نے سعودی خواتین کو ملک سے فرار ہونے میں مدد فراہم کی۔ حالیہ دنوں میں وہ اپنے اس نظریہ پر مرکوز نظر آئے کہ جرمن حکام سعودی پناہ گزینوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
ماہرین کے تاثرات
نوئمن نے اس حالیہ واقعے پر اپنے اچنبے کا اظہار کرتے ہوئے تحریر کیا،”میں اپنے اس شعبے سے گزشتہ 25 سال سے منسلک ہوں۔ اس اثناء میں ہونے والے تجربات کے بعد مجھے کوئی چیز بھی حیران نہیں کرتی تھی لیکن سابق مشرقی جرمنی میں رہنے والا 50 سالہ سعودی باشندہ، جو خود کو سابق مسلمان کہتا ہے اور مسلمانوں اور غیر ملکیوں کی سخت مخالفت کرنے والی پارٹی (AfD) سے الفت رکھتا ہے اور جرمنی کو اسلام پسندوں کے خلاف رواداری کی سزا دینا چاہتا ہے، اس چیز کا گمان میرے ریڈار پر نہیں تھا۔‘‘دریں اثناء وفاقی جرمن پارلیمان بنڈسٹاگ میں ایک سرکردہ سوشل ڈیموکریٹ قانون ساز نے کسی حتمی نتیجے پر پہنچنےسے خبردارکرتے ہوئے کہا، ”ایسا لگتا ہے کہ حملہ آور اسلام پسندانہ مقاصد نہیں رکھتا تھا۔‘