کیا ٹرمپ انتظامیہ عمران خان کو بچا سکتی ہے؟
پاکستان کے سیاسی منظرنامے کے حوالے سے ایک اہم اور بنیادی سوال ہر جگہ زیربحث ہے۔ کیا ٹرمپ انتظامیہ تحریک انصاف کے لیے مسیحا ثابت ہوسکتی ہے اور کیا امریکا سابق وزیراعظم عمران خان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈال سکتا ہے؟تاریخ ہمیں کیا بتاتی ہے؟ یہاں ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان بعض امور پر امریکی دباؤ کی کوئی پرواہ نہیں کرتا اور اس کی پالیسی یکساں اور غیر متزلزل ہے۔ جیسے ایٹمی پروگرام پر اور عسکری استعداد خصوصاً میزائل پروگرام پر کسی قسم کا دباؤ خاطر میں نہیں لایا گیا۔ امریکی تھنک ٹینکس کے لیے کام کرنے والے ممتاز تجزیہ نگار شجاع نواز نے ایک بار مجھے انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ ایک حد سے زیادہ دباؤ ڈالنے پر باؤنس بیک کرتی ہے اور یہ بات امریکی حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور ان کی انٹیلی جنشیا اچھی طرح جانتی ہے۔
پاکستان نے امریکا کی خاطر اپنے ہمسایہ ممالک خاص کر ایران کے ساتھ کبھی تعلقات نہیں بگاڑے۔ 80 کی دہائی (1980-88) میں جب پاکستان کھل کر مغرب کی مدد سے روس کے خلاف افغان تحریک مزاحمت کو سپورٹ کرر ہا تھا تب بھی جنرل ضیا الحق نے شدید دباؤ کے باوجود ایران کے خلاف کبھی کچھ نہیں کیا۔ پاکستان نے بھارتی برتری کے آگے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے خواہ امریکی یہ چاہتے اور کہتے ہوں۔اسی طرح پاکستان نے امریکی دباؤ کے باوجود کبھی چین سے اپنے تعلقات منقطع نہیں کیے۔ پاکستان کے عسکری معاملات ہمیشہ چین کے ساتھ جڑے رہے، خواہ امریکی اس پر جس قدر ناک بھوں چڑھاتے رہے ہوں۔ پاکستان سی پیک کو ترک کرنے کے حوالے سے امریکی دباؤ کی ابھی تک مزاحمت کر رہا ہے۔ ایک اور معاملہ جس پر امریکی کانگریس نے بھی خاصا دباؤ ڈالا، مگر اسٹیبلشمنٹ نے اس پر اسٹینڈ لیا وہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو امریکا کے حوالے نہ کرنا ہے۔ پچھلے 13 برسوں سے امریکی خفیہ اداروں کے لیے استعمال ہونے والا ڈاکٹر شکیل سلاخوں کے پیچھے ہے اور سردست اس کی رہائی کے امکانات کم ہی ہیں۔
اس سب کچھ کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض امور میں امریکی دباؤ کارگر ثابت ہوتا ہے اور پاکستانی حکومتیں کئی بار امریکیوں کو ناراض نہیں کرتیں، مصلحتاً ان کی بات مان لیا کرتی ہیں۔ صدر کلنٹن نے اپنی صدارت کے آخری ایام میں کوشش کی کہ نوازشریف کو سزا سے بچا لیا جائے، امریکی اثرورسوخ نے قطر اور دیگر دوست ممالک کو ایکٹو کیا اور جنرل مشرف شریف خاندان کو ایک خاص مدت کے لیے جلاوطن کرنے پر رضامند ہوگئے۔اسی طرح این آر او اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی میں بھی مبینہ طور پرامریکی، برطانوی اثرورسوخ کار فرما رہا، کونڈا لیزا رائس تب امریکی وزیر خارجہ تھیں۔ مغربی میڈیا کی بعض رپورٹس کے مطابق انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ڈیل کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔
ایک اور بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ پاکستان کی دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت یا قوت مزاحمت میں کمزور معاشی صورتحال کی وجہ سے کمی آئی ہے۔ امریکا کے پاس پاکستان پر دباؤ ڈالنے یا کچھ منوانے کے لیے سب سے آسان اور مؤثر طریقہ آئی ایم ایف معاہدہ ہے۔ہر 3 مہینے کے بعد آئی ایم ایف معاشی پروگرام کا جائزہ لیتا ہے اور پھر یہ طے کرتا ہے کہ اگلی قسط دی جائے یا نہیں؟ پاکستان کا معاشی استحکام بڑی حد تک آئی ایم ایف کے پروگرام پر منحصر ہے۔ جب یہاں سے قرض مل جاتا ہے تو معاشی ریٹنگ بھی بہتر ہوجاتی ہے، دوست ممالک قرض بھی دے دیتے ہیں اور اسٹاک مارکیٹ بھی تیزی سے اوپر کی طرف جاتی ہے۔ امریکا کو کچھ منوانا ہو تو اس بار لیوریج آئی ایم ایف ہی ہوگا۔
ٹرمپ انتظامیہ کا رویہ کیا ہوگا؟
نومنتخب صدر ٹرمپ نے ابھی تک عمران خان کے حوالے سے کوئی ٹوئٹ یا بیان نہیں دیا۔ درحقیقت ان کے اب تک کے پالیسی ایجنڈے میں پاکستان کا سرے سے ذکر ہی نہیں آیا۔ ٹرمپ کا اپنا ایجنڈا ہے اور ان کے اپنے چیلنجز ہیں۔ٹرمپ کا اصل فوکس امریکا کے اندر اصلاحات لانے، امریکی اسٹیبلشمنٹ کو ’راہ راست‘ پر لانے، ڈیموکریٹس کو سبق سکھانے، سرکاری اخراجات کم کرنے اور غیر قانونی تارکین وطن سے امریکا کو محفوظ بنانے پر ہے۔ یوکرائن جنگ ختم کرانا ان کی ترجیح ہوگی، مڈل ایسٹ پر کوئی بڑا سمجھوتا کرنا بھی ان کے ٹاسک میں شامل ہوسکتا ہے۔ وہ نیٹو کے اخراجات کے لیے یورپ پر زیادہ مالی بوجھ ڈالنا چاہتے ہیں جبکہ چین کے ساتھ تجارتی جنگ بھی ٹرمپ کا فوکس ہے۔
عمران خان کا معاملہ
ان بڑے ایشوز کو دیکھتے ہوئے پاکستان اور پھر پاکستان کی داخلی سیاست پر توجہ کرنا اور اسیر عمران خان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنا شاید صدر ٹرمپ کی ترجیحات یا کہہ لیں ٹاپ 10 ترجیحات میں نہ ہو۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے مخالفانہ رویہ یا سوچ کی حامل نہیں ہوگی۔ وہ پرو عمران خان نہیں مگر اینٹی عمران خان بھی نہیں ہوں گے۔ اس کے برعکس موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے ایک خاص قسم کا سردمہری والا رویہ اپنائے رکھا۔ تحریک انصاف سے وابستہ اوورسیز پاکستانیوں کی سرتوڑ کوشش کے باوجود کانگریس میں تو قراردادیں منظور ہوئیں، ارکان اسمبلی نے صدر کو خطوط بھی لکھے، مگر وائٹ ہاؤس نے انہیں درخوراعتنا نہ سمجھا اور بائیڈن انتظامیہ کا رویہ عمران خان مخالف ہی رہا۔
اس لیے مجھے یہ لگ رہا ہے کہ اگرتحریک انصاف کے حامی اوور سیز پاکستانیوں کی لابی مؤثر رہی تو عین ممکن ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ میں انہیں کسی قدر ہمدردی مل سکے۔ صدر ٹرمپ نے ایک ایسے شخص کو اپنا مشیر بنایا ہے جو واضح طور پر عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کر چکا ہے۔ انہوں نے 2 دن قبل اپنے ٹوئٹ میں اس مطالبے کو دہرایا۔ اس سے پہلے بائیڈن انتظامیہ میں اس سطح پر کوئی امریکی عہدے دار تحریک انصاف کے لیے ایسا سافٹ کارنر نہیں رکھتا تھا۔تحریک انصاف کے لوگ خصوصاً سوشل میڈیا ایکٹوسٹس بہت زیادہ توقعات لگائے بیٹھے ہیں، ممکن ہے ویسا نہ ہو، مگر بہرحال کوشش کرنے پر انہیں کچھ نہ کچھ کامیابی ضرور مل سکتی ہے۔ یہ البتہ دیکھنا ہوگا کہ کسی امریکی عہدے دار کا ایسا بیان یا ٹوئٹ یا ماضی کی طرح امریکی کانگریس میں منظور کی جانے والی کوئی قرارداد کا پاکستان میں کیا اثر پڑے گا؟ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کیا ان تمام کوششوں کے نتیجے میں صدر ٹرمپ کی جانب سے بھی کوئی ٹوئٹ آتا ہے؟ ایسے کسی بھی ٹوئٹ کا بہرحال اثر زیادہ ہوگا اور اسے نظرانداز کرنا آسان نہیں ہوگا۔
ایک اہم فیکٹر چین کا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ بظاہر اینٹی چین حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھے گی۔ اگر چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر پاکستان پر بھی دباؤ بڑھے گا۔ ممکن ہے اس دباؤ بڑھانے کے زمرے میں امریکا کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی یاد آجائیں اور پھر سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جائے۔ان تمام نکات کو سامنے رکھتے ہوئے تحریک انصاف اگر 20 جنوری کا انتظار کر رہی ہے اور اسے کسی کرشمے کی توقع ہے تو ان کی اس امید کو توڑنے کا کم از کم میرا کوئی ارادہ نہیں۔البتہ میری یہ خواہش ہے کہ ہمیں اپنے معاملات خود طے کرنے چاہییں، کسی غیر ملکی دباؤ کی نوبت ہی نہیں آنی چاہیے۔ موجودہ صورتحال میں ایک بہترین آپشن یہ ہے کہ حکومت تحریک انصاف مذاکرات شروع ہوں۔ تحریک انصاف نے سول نافرمانی کی تحریک بھی ملتوی کر دی اور مذاکرات کے لیے اعلیٰ سطحی کمیٹی بھی موجود ہے۔
اب گیند حکومت کی کورٹ میں ہے۔ خواجہ آصف اور رانا تنویر جیسے وزرا کو تحریک انصاف کا تمسخر اڑانے اور تند وتیز حملے کرنے کے بجائے خاموش رہ کر مذاکرات شروع کرانے میں معاون بننا چاہیے۔تحریک انصاف کو محمود خان اچکزئی جیسے تجربہ کار سیاستدانوں کو آگے کر کے پی پی پی اور ن لیگ کے ساتھ مذاکرات کرنے چاہییں۔ سیاسی ٹمپریچر کم کرنے کے لیے اپوزیشن کو کچھ رعایتیں ملنی چاہییں۔ اپوزیشن کو بھی چاہیے کہ سڑکوں پر آنے کی دھمکیوں کے بجائے اب پارلیمنٹ کا راستہ پکڑیں۔ یہی بہترین حل ہے اور ملکی معاشی وسیاسی حالات بھی اسی کے متقاضی ہیں۔