ڈھاکا پاکستان کے ساتھ 1971 سے پیدا ہونے والے مسائل حل کرکے آگے بڑھنے کا خواہشمند

200925424a92406.jpg

بنگلہ دیش کی حکومت کے عبوری سربراہ ڈاکٹر محمد یونس نے پاکستان کے ساتھ 1971 سے پیدا ہونے والے مسائل حل کرکے آگے بڑھنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔نمائندہ بصیر میڈیا کے مطابق قاہرہ میں ترقی پذیر ممالک کے ڈی 8 سربراہ اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کے دوران بنگلہ دیش کے عبوری رہنما نے 1971 میں ڈھاکا کی اسلام آباد سے علیحدگی سے پیدا ہونے والی شکایات کو حل کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ڈاکٹر محمد یونس نے وزیر اعظم شہباز شریف سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’مسائل بار بار آتے رہے ہیں، آئیے ان مسائل کو حل کریں تاکہ ہم آگے بڑھ سکیں‘۔

وزیراعظم شہباز شریف نے ڈاکٹر یونس سے ملاقات کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تاریخی، مذہبی اور ثقافتی روابط کو اجاگر کیا اور دوطرفہ تعاون بالخصوص تجارت، عوامی رابطوں اور ثقافتی تبادلوں کے شعبوں میں پاکستان کی گہری خواہش کا اظہار کیا۔بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ ڈاکٹر یونس نے 8 ممالک پر مشتمل جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون تنظیم (سارک) کی بحالی کے عزم کا بھی اظہار کیا، رپورٹس کے مطابق ڈاکٹر یونس نے وزیر اعظم شہباز شریف کو بتایا کہ سارک کی بحالی ہماری اولین ترجیح ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور سفر کو آسان بنانے کے لیے پاکستان سے آنے والی کنسائمنٹس کے 100 فیصد فزیکل معائنے کی شرط اور ڈھاکا ایئرپورٹ پر پاکستانی مسافروں کی جانچ پڑتال کے لیے خصوصی سیکیورٹی ڈیسک کا خاتمہ کرنے پر ڈاکٹر یونس سے اظہار تشکر کیا۔

وزیراعظم نے پاکستانی ویزا درخواست دہندگان کے لیے اضافی کلیئرنس کی شرائط ختم کرنے پر بھی بنگلہ دیش کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کیمیکلز، سیمنٹ کلنکرز، آلات جراحی، لیدر گڈز اور آئی ٹی سمیت مختلف شعبوں میں تجارت کو فروغ دینے کے وسیع امکانات سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔دونوں رہنماؤں نے دوطرفہ تعلقات میں حالیہ مثبت پیش رفت پر اطمینان کا اظہار کیا اور اعلیٰ سطح کے رابطوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر اطمینان کا اظہار کیا۔انہوں نے باہمی دلچسپی کے تمام شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو وسعت دینے پر بھی اتفاق کیا اور باہمی فائدہ مند ترقیاتی مقاصد کے حصول کے لیے کوششوں کو ہم آہنگ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔دونوں رہنماؤں نے لوگوں کے درمیان روابط اور ثقافتی تبادلوں کی اہمیت کو تسلیم کیا جس میں فنکاروں، کھلاڑیوں، ماہرین تعلیم اور طلبہ کے تبادلوں میں اضافہ شامل ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے