چیمپیئنز ٹرافی: محسن نقوی کا ’فہم‘ جے شاہ کو مات دے گیا
کہنے کو آئی سی سی چئیرمین جے شاہ اس سیاسی بساط پر ’کنگ‘ ہیں مگر وہ انڈیا کے لیے کر بھی کیا پاتے کہ ان کے پیش رو گریگ بارلے جاتے ہوئے نہ صرف اس ادارے کی ڈوبتی ساکھ کا اعتراف کر گئے ہیں بلکہ یہ تنبیہہ بھی کر گئے ہیں کہ اس کی بحالی میں یہ ذمہ داری جے شاہ کی تھی کہ وہ اسے انڈیا کی ’کٹھ پتلی‘ بننے سے روکیں۔برطانوی جریدے ٹیلی گراف کو انٹرویو میں گریگ بارکلے کا کہنا تھا کہ آئی سی سی کی موجودہ حالتِ زار کا سبب ممبر بورڈز کے اپنے مالی مفادات تھے۔جہاں انھوں نے کرکٹ میں زرخیز انڈین مارکیٹ کو کھیل کی ’خوش بختی‘ قرار دیا، وہیں یہ بجا خدشہ بھی دہرایا کہ ایک ممبر کے اس قدر غلبے سے ادارے کے دیگر معاملات متاثر ہو سکتے ہیں۔گو عالمی کرکٹ کی سربراہی سنبھالنے سے پہلے، ایشیائی کرکٹ کونسل کی سربراہی کے دوران جے شاہ ایشیا کپ کے موقع پر انڈیا کی پاکستان آمد کا ‘ٹنٹا’ مکھن میں سے بال کی طرح نکال گئے تھے، مگر اب صورتِ حال مختلف تھی۔
اب وہ جس کرسی پر بیٹھے ہیں، اس منصب کا تقاضہ انڈیا کرکٹ کے جذبات کی ترجمانی سے آگے بڑھ کر، عالمی کھیل میں شفافیت اور فروغ کو بڑھانا ہے۔اضافی پیچیدگی ان کے لیے یہ بھی ٹھہری کہ جہاں ایک طرف وہ خود انڈین وزیرِ داخلہ امت شاہ کے بیٹے ہیں، وہیں ان کے مدِ مقابل چئیرمین پی سی بی محسن نقوی بذاتِ خود پاکستان کے وزیرِ داخلہ بھی ہیں۔اس کا سیدھا سیدھا مطلب یہ تھا کہ 2026 کے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کا انڈیا جانا پوری طرح محسن نقوی کے قلمدان کی اجازت سے مشروط تھا۔تاریخی طور پر آئی سی سی میں پاکستان کی نمائندگی ہمیشہ کمزور رہی ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات اگرچہ عموماً مارکیٹ اکانومی کے تابع ہیں مگر بالخصوص چند سابقہ پی سی بی سربراہان کی اپنی کم مائیگی بھی ایک نمایاں سبب رہی ہے۔مگر یہاں، بطور چئیرمین پی سی بی محسن نقوی لائقِ تحسین رہے کہ جن شرائط پر انھوں نے یہ منافع بخش ڈیل حاصل کی، وہ ماضی کے برعکس پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے۔
بادئ النظر میں یہ ایسی رسہ کشی تھی کہ جہاں محسن نقوی کا فتح یاب ٹھہرنا بعید از قیاس تھا۔ مگر اپنے پتے کھیلتے وقت وہ بخوبی واقف تھے کہ ان کے حریف جے شاہ کو یہاں انڈین کرکٹ کے ’وقار‘ اور نریندر مودی کی خارجہ پالیسی سے بڑھ کر آئی سی سی کی اس براڈ کاسٹ ڈیل کا تحفظ کرنا تھا جہاں سب سے بڑا سٹیک ہولڈر انڈین براڈکاسٹر سٹار سپورٹس ہے۔سٹار سپورٹس نہ تو اس ایونٹ کے التوا کا متحمل ہو سکتا تھا جس کی ریوینیو سٹریمز پہلے ہی بِک چکی ہوں اور نہ ہی کسی تعطل کے سبب وہ انڈیا پاکستان میچ کھونا گوارا کر سکتا تھا جو اس ریونیو پول میں ایک خاطر خواہ حیثیت رکھتا ہے۔اس معاملے کا ایک کڑا پہلو یہ بھی تھا کہ آئی سی سی کی موجودہ تاریخی براڈ کاسٹ ڈیل پہلا موقع تھی جہاں انڈین مارکیٹ کے رائٹس الگ فروخت کیے گئے تھے۔سو، اگر یہ تنازع طول پکڑتا تو خسارہ اگرچہ سکائی سپورٹس، فاکس اور سپر سپورٹس کو بھی ہوتا مگر سب سے زیادہ گھاٹا بھی اسی سٹار سپورٹس کے حصے آتا جو اس ڈیل کا سب سے بڑا حصے دار ہے اور اگر بارکلے کے انکشافات ملحوظ رکھے جائیں تو پہلے ہی اپنی اس ڈیل سے بہت مطمئن نہیں ہے۔
گریگ بارکلے بتاتے ہیں کہ جب وہ موجودہ آئی سی سی ایونٹس سائیکل کے عالمی نشریاتی حقوق فروخت کرنے جا رہے تھے تو ان کا خیال تھا کہ یہ چار سالہ گلوبل رائٹس 800 ملین ڈالر کے لگ بھگ بِک جائیں گے۔ مگر جب صرف انڈین مارکیٹ کے لیے ہی سٹار سپورٹس نے چار سالہ رائٹس کے عوض 2.4 بلین ڈالر کی بولی دھری تو وہ یہ دیکھ کر بھی دم بخود رہ گئے۔خیال رہے کہ سٹار کے بعد دوسری بڑی بولی صرف 237 ملین پاؤنڈ کی تھی جو آٹھ سالہ رائٹس کے عوض سکائی سپورٹس نے لگائی۔اگر بارکلے کے اس قیاس کو اہمیت دی جائے کہ اس ’اوور ویلیوڈ‘ براڈکاسٹ ڈیل میں عنقریب کسی بڑی درستی کی ضرورت پڑ سکتی ہے تو یہ بعید از قیاس نہیں کہ انڈین انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی اکانومی میں نمایاں حصہ ڈالنے والے ڈزنی سٹار سپورٹس کا دباؤ ہی یہاں پی سی بی کا کام آسان کر گیا ہو۔
پی سی بی کا طرزِ عمل قابلِ تحسین ہے کہ مہینہ بھر کے تعطل اور انڈین میڈیا کے ذریعے جاری کردہ مسلسل ’دھمکیوں‘ کے باوجود نہ صرف محسن نقوی اپنے موقف پر قائم رہے بلکہ جہاں کہیں انھیں کچھ مصلحت بھی دکھانا پڑی، وہاں بھی وہ بہتر لابنگ اور مضبوط موقف کے ساتھ سامنے آئے۔اس عمل کے نتیجے میں نہ صرف پی سی بی ٹورنامنٹ کے مکمل ہوسٹنگ رائٹس اپنے ہاتھ رکھنے میں کامیاب ہوا ہے بلکہ نئے وینیو کے اضافی لاجسٹک اخراجات کی تلافی میں 2028 کے ویمنز ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میزبانی بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ایک پہلو اس ڈیل کا البتہ وہ ہے جو ہائبرڈ ماڈل کے نتیجے میں پاکستان کے مالی خسارے کا بجا طور پر مداوا کر سکتا ہے مگر بد قسمتی سے مستقبل قریب میں اس کا کوئی روشن امکان دکھائی نہیں دیتا۔نیوٹرل وینیو پر کسی تیسرے ایشیائی ملک کے ہمراہ سہ رکنی سیریز مالی اعتبار سے دونوں بورڈز کے لیے یکساں سود مندی لا سکتی ہے مگر اس معاملے میں فقط دونوں بورڈز کی باہمی ذمہ داری اور آئی سی سی کی ادارہ جاتی لاتعلقی کے پیشِ نظر یہ صرف تبھی ممکن ہو پائے گا جب کبھی بی سی سی آئی کو بھی پیسوں کی اتنی ہی ضرورت پڑ گئی جتنی پی سی بی کو رہتی ہے۔
آئی سی سی کی داخلی سیاست کے اعتبار سے یہ نتیجہ صرف پی سی بی کی ہی جیت نہیں ہے بلکہ ان تمام کرکٹ بورڈز کے لیے بھی ایک اخلاقی فتح ہے جن کے مالی مفادات انڈین کرکٹ کے روز افزوں رسوخ سے متاثر ہوتے آئے ہیں۔مگر پاکستانی شائقین کے بعد اب انڈین شائقین کے لیے بھی یہ پہلو خوش آئند نہیں کہ وہ کرکٹ کی تاریخ کے کے بہترین پاکستان انڈیا مقابلے اب اپنے ہوم گراؤنڈز پت نہیں دیکھ پائیں گے۔اور پی سی بی کی تو خیر ہے مگر کیا انڈیا یہ افورڈ کر پائے گا کہ وہ اپنی میزبانی میں کھیلے گئے ایونٹ کے فائنل میں خود انڈیا سے باہر کھیلنے پر مجبور ہو؟یہ مشاہدہ البتہ دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ اگر اس ماڈل کے نتیجے میں کوئی انڈیا پاکستان فائنل کسی نیوٹرل وینیو پر ہو پایا تو کیا اس سے سیاسی محاذ پر جمی برف پگھل سکے گی جہاں دونوں ممالک کے سربراہان اکٹھے سٹیڈیم میں دیکھنے کو ملیں اور شاید ماضی کی طرح کرکٹ ڈپلومیسی کا کوئی نیا باب بھی کھلے۔
ڈیڑھ برس پہلے، جب جے شاہ نے پاکستان سے پورے ایشیا کپ کی میزبانی ہی تقریباً چھین لی تھی، تب کوئی گمان بھی نہ کر سکتا تھا کہ اس کرسی سے کئی گنا طاقتور کرسی پر براجمان ہونے کے بعد یہی جے شاہ ایک روز یوں پاکستان کے مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے۔وہ شاید یہاں بھی ہارنے والے نہ تھے مگر محسن نقوی کی فراست نے ان کے مہرے مات کر دیے۔