پوٹن کی سالانہ پریس کانفرنس "ٹرمپ” سے ملاقات کا خیر مقدم
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اپنی سالانہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کسی بھی وقت بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کہہ چُکے ہیں کہ وہ صدارتی عہدہ سنبھالنے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی یوکرین امن معاہدے پر کام شروع کر سکتے ہیں۔ٹرمپ، جو جنوری میں دوسری بار امریکہ کے صدر کی حیثیت سے دوبارہ وائٹ ہاؤس منتقل ہو جائیں گے، کییف حکومت کو یہ عندیہ دے چُکے ہیں کہ وہ یوکرین کو ماسکو کے لیے سازگار شرائط پر امن قبول کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان کے فوجیوں نے میدان جنگ میں بالادستی حاصل کی، لیکن وہ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہیں کہ انہیں نہیں پتا کہ روس کب مغربی کرسک کے علاقے کو واپس لے گا جہاں یوکرین کے فوجیوں نے گزشتہ اگست میں حملہ کیا تھا۔
سالانہ پریس کانفرنس کے اہم سوال و جواب
روس کے صدر ولادیمیر پوٹن ہر سال ایک اختتامی پریس کانفرنس میں گھنٹوں جاری رہنے والے سوال جواب سیشن میں بھی حصہ لیتے ہیں جسے ٹیلی وژن پر براہ راست نشر کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر چند مشکل اور نازک سوالات بھی پوچھے جاتے ہیں۔اس سال سوال جواب کے سیشن میں یوکرین کے ساتھ ممکنہ امن معاہدے کے حوالے سے ٹرمپ کے اقدامات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر پوٹن نے کہا کہ وہ آنے والے ریپبلکن امریکی صدر کے ساتھ ملاقات کا خیرمقدم کریں گے۔ روسی صدر کا کہنا تھا، ”مجھے نہیں معلوم کے میں ٹرمپ سے کب ملنے جا رہا ہوں۔ وہ اس بارے میں کچھ نہیں کہہ رہے ہیں۔ میں نے چار سال سے زائد عرصے سے ٹرمپ سے کوئی بات نہیں کی۔ میں اب کسی بھی وقت ان سے ملاقات کے لیے تیار ہوں۔
ولادیمیر پوٹن نے مزید کہا،”اگر ہماری کبھی منتخب صدر ٹرمپ سے ملاقات ہوتی ہے تو مجھے یقین ہے کہ ہمارے پاس بات کرنے کے لیے بہت کچھ ہو گا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ روس مذاکرات اور سمجھوتے کے لیے تیار ہے۔کریملن نے حال ہی میں صدر جو بائیڈن کی طرف سے کییف کو روسی سرزمین پر حملہ کرنے کے لیے امریکی فراہم کردہ میزائل استعمال کرنے کی اجازت دینے کے فیصلے پر ٹرمپ کی شدید تنقید کا خیرمقدم کیا تھا۔ بائیڈن کا یہ اقدام تقریباً تین سال سے جاری روس یوکرین تنازعے میں ایک بڑے اضافے کا سبب بنا۔
روس اپنے فوجی آپریشن کے مقاصد کی طرف بڑھ رہا ہے
روس کی فوجیں کئی مہینوں سے مشرقی یوکرین میں پیش قدمی کر رہی ہیں۔ پوٹن بار بار میدان جنگ میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا، ”ہم ان بنیادی مقاصد کو حل کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں جو ہم نے خصوصی فوجی آپریشن کے آغاز میں طے کیے تھے۔‘‘ پوٹن نے کہا، ”ہمارے جوان بہادری سے لڑ رہے ہیں۔ ہماری مسلح افواج کی صلاحیتیں بڑھ رہی ہیں۔
ماسکو کی فوج نے نومبر میں مشرقی یوکرین میں تیز ترین رفتار سے پیش قدمی کی۔ لیکن کُرسک کے علاقے سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے پوٹن سے پوچھا کہ یوکرینی حملے کے دوران فرنٹ لائن علاقوں سے ہزاروں افراد کو نکالے جانے کے بعد وہاں کے رہائشی کب اپنے گھروں کو واپس جا سکیں گے؟ پوٹن نے کہا کہ وہ ایک مخصوص تاریخ نہیں بتا سکتے۔ ان کا کہنا تھا، ”ہم انہیں بالکل باہر نکال دیں گے۔ اس کا کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا۔
روس کا اقتصادی بحران
72 سالہ پوٹن کو روس کے اقتصادی بحرانوں کے سبب بھی دباؤ کا سامنا ہے جو کہ یوکرین تنازعے کی وجہ سے فوجی اخراجات میں اضافے اور مزدوروں کی شدید کمی کا سبب بھی ہے۔ تاہم روسی صدر نے کم بیروزگاری اور اقتصادی نمو کا حوالہ دیتے ہوئے اصرار کیا کہ ان کے ملک کی اندرونی صورتحال بیرونی خطرات کے باوجود مستحکم ہے۔بڑھتی ہوئی مہنگائی کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر پوٹن نے کہا کہ مہنگائی ایک تشویشناک سگنل ہے اور یہ کہ مکھن اور گوشت جیسی اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ یقیناً ناخوشگوار ہے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ مغربی پابندیاں بھی اس صورتحال میں ایک عنصر ہیں۔ مرکزی بینک پر تنقید کرتے ہوئے پوٹن نے کہا کہ اسے مہنگائی کو کم کرنے کے لیے شرح بڑھانے کے علاوہ اقدامات کرنے چاہیے تھے۔
کیا بشار الاسد کا تختہ الٹنا روس کی شکست تھا؟
پوٹن کے ساتھی سمجھے جانے والے سابق شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے زوال کے بعد اپنے پہلے عوامی تبصروں میں، پوٹن نے ان دعووں کو مسترد کر دیا کہ شامی صدر کا تختہ الٹنا روس کی شکست کا مظہر تھا۔ایک صحافی کے سوال کے جواب میں پوٹن نے کہا، ” شام میں جو کچھ ہو رہا ہے اسے آپ روس کی شکست کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے۔ ہم نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے ہیں۔ پوٹن نے کہا کہ وہ ابھی تک اسد سے نہیں ملے، جو سقوط دمشق کے بعد فرار ہو کر ماسکو پہنچ گئے تھے۔ولا دیمیر پوٹن نے تاہم کہا کہ وہ جلد ہی بشارالاسد سے ملنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔