پاکستان کا غزہ ” پارا چنار” فیصل ایدھی نے کیا دیکھا
فلاحی ادارے ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی کے مطابق ضلع کرم میں کشیدگی اور اسے پاکستان کے دیگر حصوں سے ملانے والی مرکزی شاہراہ ٹل پارا چنار کی بندش کے باعث علاقے میں ادویات کا بحران ہے، جس کے باعث کینسر، ذیابیطس سمیت مختلف امراض کے شکار مریضوں کا روزمرہ علاج نہیں ہو رہا۔ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ’پارا چنار میں ریلیف آپریشن بہت بڑا ہے، جسے ہم زیادہ دن نہیں چلا سکتے۔ ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے اور ہم چند روز تک ہی ریلیف کا کام کر سکتے ہیں۔‘ضلع کرم میں دو فریقین کے درمیاں مسلح تصادم کی وجہ سے 100 سے زائد اموات کے بعد یہ مرکزی شاہراہ گذشتہ تقریباً دو مہینوں سے بند ہے اور حکومت کا کہنا ہے کہ جب تک ضلع کرم میں اسلحہ جمع نہیں کروایا جاتا تب تک مرکزی ٹل پارا چنار شاہراہ کو نہیں کھولا جائے گا۔اس صورت حال میں فیصل ایدھی اور ان کے صاحبزادے سعد ایدھی نے کرم میں ریلیف کے کام کا آغاز کر رکھا ہے۔
ٹیلی فونک گفتگو میں فیصل ایدھی نے بتایا کہ ’گذشتہ چند روز سے لوگ کرم سے رابطہ کر رہے تھے کہ وہاں کھانے پینے کی اشیا اور ادویات کی شدید کمی ہے اور مریضوں کا علاج نہیں ہو رہا اور تمام لوگ محصور ہیں۔ کوئی باہر نہیں سکل سکتا اور جو نکلتا ہے اس پر فائرنگ ہوتی ہے۔فیصل ایدھی کے مطابق: ’راستے بند تھے، بذریعہ سڑک جانا ممکن نہیں تھا، اس لیے ہم نے حکام سے اجازت مانگی اور اجازت ملنے پر ہم ایدھی ایئر کے جہاز سے وہاں پہنچے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو لوگ ہمیں دیکھ خوش ہوئے۔لوگوں کے مطابق ڈھائی مہینوں سے وہ محاصرے میں قید تھے۔ اس دوران باہر سے کوئی بھی فرد ان کے پاس نہیں آیا۔ اس عرصے میں ہم پہلے افراد تھے جو وہاں پہنچے تھے۔
ہم نے ہسپتال دیکھا تو حالات انتہائی خراب تھے۔ ادویات کی شدید قلت تھی۔ ہسپتالوں میں سردی کے باجود ہیٹنگ کا سسٹم کام نہیں کر رہا تھا۔ اینٹی وائرل ادویات بھی موجود نہیں تھیں۔ ادویات کی کمی کے باعث کمسن بچے نمونیہ سے مر رہے ہیں۔ ہسپتالوں میں آکسیجن بھی میسر نہیں ہے۔کشدہ حالات اور علاج کی سہولیات نہ ہونے کے باعث کرم میں ڈیڑھ سے دو مہینوں سے کینسر کے مریضوں کی کیموتھراپی نہیں ہوئی، جس سے مریض شدید پریشان اور انتظار میں ہیں کہ ان کا علاج شروع ہو یا انہیں منتقل کیا جائے۔بقول فیصل ایدھی: ادویات کی کمی اور ٹھند کے باعث کمسن بچے نمونیہ سے مر رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ’وہاں ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ادویات نہیں ہیں۔ مریضوں کا علاج نہیں ہو رہا۔ ہم نے وہاں سے کینسر سے متاثرہ ایک خاتون، ریڑھ کی ہڈی کی تکلیف میں مبتلا ایک خاتون اور ایک تین سالہ بچے کو بذریعہ جہاز پشاور کے ہسپتال منتقل کیا۔
کرم میں موجودہ حالات میں ایک دن میں 10 سے 15 مریضوں کو علاج کے لیے پشاور منتقل کرنا ضروری ہے۔ ہمارا جہاز چھوٹا ہے، جس میں سٹریچر والے ایک مریض اور بیٹھ کر سفر کرنے والے دو مریضوں کو پشاور منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم اپنے جہاز سے مریضوں کی منتقلی کرتے ہیں تو کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔بقول فیصل ایدھی: ’ہماری درخواست پر حکومت خیبر پختونخوا نے ہمیں ادویات مہیا کیں، مگر ہمارا جہاز چھوٹا ہے، جس میں زیادہ سامان نہیں لے جاسکتے تھے، اس لیے صوبائی حکومت نے ہمیں اپنا ہیلی کاپٹر دیا، جس پر ہم نے کرم کے دونوں فریقین کے علاقوں میں ادویات پہنچائیں۔ہم نہ صرف ادویات پہنچا رہے ہیں بلکہ مریضوں کو کرم سے پشاور اور بعد میں پشاور سے واپس کرم بھی پہنچا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پشاور میں تین لاشیں ہیں، جو کئی روز کرم منتقل نہیں ہوسکیں، انہیں کرم پہنچانا ہے۔