پاکستان انسانوں کی غیر قانونی اسمگلنگ روکنے میں ناکام کیوں؟

1712016-1335535827.jpg

غربت کی زندگی، بے روزگاری اور مفلسی سے چھٹکارے کے لیے یورپی سرزمین پر ایک نئی زندگی شروع کرنے کے خواب، یہی کہا نی ہے ان مزید درجنوں پاکستانیوں کی، جو حال ہی میں بحیرہ روم کی بے رحم سمندری لہروں کی نذر ہو گئے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے چودہ اور پندرہ دسمبر کی درمیانی شب غیر قانونی تارکین وطن کو لے کر جانے والی تین کشتیوں کے یونانی کی حدود میں پہنچنے کی کوشش کے دوران ان کو پیش آنے والے حادثے میں پانچ پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ان ہلاک شدگان میں سے کم ازکم تین کا تعلق پاکستانی صوبہ پنجاب کے مختلف اضلاع سے بتایا جاتا ہے۔ ان کے لواحقین نے مقامی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے تقریباﹰ وہی باتیں دوہرائیں، جو اس سے قبل یورپ جانے کی کوشش میں ہلاک ہونے والے سینکٹروں افراد کے اہل خانہ اپنے پیاروں کے جان لیوا سفر سے منسوب کرتے آئے ہیں۔

تاہم اس مرتبہ اس کشتی حادثے میں سیالکوٹ کی تحصیل پسرور سے تعلق رکھنے والے تیرہ سالہ محمد عابد کا نام ہلاک شدگان کی فہرست میں دیکھ کر حکام بھی حیران رہ گئے۔ یونان میں پاکستان کے سفیر عامر آفتاب قریشی نے اس حادثے کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ بچوں کو غیر قانونی طور پر اس طرح کے سفر پر بھجوانے کا رجحان انتہائی خطرناک ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ والدین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ کم از کم اپنے نابالغ اور کم سن بچوں کو تو اس طرح کے خطرناک سفر پر نہ بھجوائیں۔ایتھنز میں پاکستانی سفارتی حکام کے مطابق اس حادثے میں 47 پاکستانی شہریوں کو ریسکیو کر لیا گیا تھا، جنہیں اب یونان کے ایک حراستی مرکز میں رکھا گیا ہے۔ حکام کے مطابق اگرچہ اس حادثے کے دوران لاپتہ ہونے والے پاکستانی شہریوں کی اصل تعداد کا تو کوئی علم نہیں، تاہم یہ پاکستانی تارکین وطن درجنوں میں ہو سکتے ہیں۔

ہلاک شدگان کے لواحقین کے مطابق ان کے پیاروں کو انسانوں کے اسملگروں نے فیصل آباد سے مصر اور پھر وہاں سے لیبیا پہنچایا تھا، جہاں سے وہ اپنی زندگی کے آخری سفر پر روانہ ہوئے تھے۔ یہی وہ صورت حال ہے، جس پر ناقدین انسانوں کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے حکومتی اداروں کی کوششوں پر سوالات اٹھاتے ہیں۔رپورٹر ذوالقرنین طاہر طویل عرصے سے انسانوں کی اسمگلنگ کے واقعات کو رپورٹ‌ کرتے آئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب فیصل آباد سے ایک تیرہ سالہ بچہ مصر کے لیے مسافر پرواز میں سوار ہوتا ہے، تو کیا امیگریشن (فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی) کے حکام کو اس سے سوالات نہیں کرنا چاہییں کہ وہ مصر کا سفر کیوں اور کس لیے کر رہا ہے؟

ذوالقرنین طاہر کا کہنا تھا، ’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ صرف ہیومن ٹریفکنگ کرنے والوں کی ہی نہیں، حکومت کو اپنے محکموں کے اندر کالی بھیڑوں کی بھی خبر لینا چاہیے۔ اس طرح کی باتیں بھی کی جاتی ہیں کہ پاکستان میں کسی بھی ایئر پورٹ پر امیگریشن کا عملہ ایک سو سے دو سو ڈالر تک لے کر اپنی آنکھیں بند کر لیتا ہے۔‘‘حالیہ برسوں میں پاکستان سے انسانوں کی غیر قانونی اسمگلنگ کے نتیجے میںسب سے بڑا حادثہ 2023ء میں یونان کے ساحل کے نزدیک ہی پیش آیا تھا، جب غیر قانونی تارکین وطن کی ایک کشتی ڈوبنے کے حادثے میں 262 پاکستانی ہلاک ہو گئے تھے۔اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر عوامی غم وغصے کے اظہار پر حکومت نے انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا عزم کیا تھا۔ اس کے چند ماہ بعد تک کچھ کارروائیاں دیکھنے میں بھی آئیں، تاہم اس کے بعد بھی انسانوں کی اسمگلنگ کا سلسلہ بغیر کسی رکاوٹ کے جاری ہے۔ اب اس تازہ حادثے کے بعد بھی وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت بدھ کے روز ہیومن ٹریفکنگ کی روک تھام کے لیے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا۔

اس اجلاس کے بعد جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا گیا کہ وزیر اعظم نے انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کرتے ہوئے گزشتہ ایک سال میں دنیا بھر میں ایسے تمام واقعات کی رپورٹ طلب کر لی ہے، جن میں پاکستانی شہری ہلاک ہوئے یا شامل تھے۔ وزیر اعظم نے ہیومن ٹریفکنگ میں ملوث ایجنٹوں کے خلاف کارروائی میں سستی برتنے والے سرکاری افسران کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت بھی کی۔وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اس قسم کے واقعات کا بار بار رونما ہونا پاکستان کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ وزیر اعظم کو بریفنگ کے دوران آگاہ کیا گیا کہ اب تک پاکستان میں انسانوں کی سمگلنگ کے 174 مقدمات عدالتوں میں پیش کیے جا چکے ہیں جبکہ چار ملزمان کو سزائیں ہوئی ہیں۔انسانوں کی اسمگلنگ کے مقدمات میں سزاؤں کا تناسب بہت کم رہنے سے متعلقایف آئی اے حکام کا موقف یہ رہا ہے کہ انہیں عدالتوں میں گواہان پیش کرنے میں دقت کا سامنا رہتا ہے اور اکثر متاثرہ افراد یا ان کے رشتے دار اس لیے گواہی دینے سے کتراتے ہیں کہ ایسا کرنے سے انہیں ایجنٹوں کو دیے گئے پیسے واپس نہیں ملیں گے۔

صحافی ذوالقرنین طاہر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں اسی وقت ادارے ایکشن میں دکھائی دیتے ہیں، جب کو ئی حادثہ پیش آ چکا ہو۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”ایف آئی اے دباؤ پڑنے پر وقتی طور پر ایکشن میں آتی ہے لیکن اس کے کچھ عرصے بعد صورت حال جوں کی توں ہو جاتی ہے۔‘‘اس بارے میں انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ”اب تک سب کو پتہ چل چکا ہے کہ پاکستان میں گجرانوالہ، سیالکوٹ، منڈی بہاؤالدین اور گجرات کے اضلاع کے علاوہ (پاکستان کے زیر انتظام) کشمیر کے کچھ علاقوں سے لوگوں کے غیر قانونی سفر کرنے کا رجحان بہت زیادہ ہے اور انہی علاقوں میں ہیومن اسمگلنگ کے گینگ بھی زیادہ فعال ہیں۔ تو کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ایف آئی کو اس بارے میں کوئی علم نہیں؟‘‘ذوالقرنین طاہر کا کہنا تھا کہ اگر انسانوں کی اسمگلنگ کے غیر قانونی راستوں کی بات کریں، تو وہ بھی اب سبھی کے علم میں ہیں،

ایک لینڈ روٹ پاکستانی شہر کوئٹہ سے ایران اور پھر وہاں سے ترکی کے ذریعے یورپ جانے کا ہے، ہوائی راستوں کی بات کریں تو پاکستان سے مصر اور وہاں سے لیبیا یا یو اے ای اور پھر وہاں سے لیبیا، اور پھر آگے یورپ کا سفر کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اب کچھ عرصے سے پاکستان سے آذربائیجان کے دارالحکومت باکو اور پھر وہاں سے ترکی کا فضائی روٹ بھی انسانوں کے اسمگلروں میں کافی مقبول ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہیومن ٹریفکنگ کو روکنے کے لیے سنجیدگی اور عزم کی ضرورت ہے، ورنہ پاکستان کے دیہات اور گلی محلوں سے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی نوجوانوں کے یورپ اور دیگر مغربی ممالک کے سفر کا سلسلہ تھمنے والا نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے