مشرق وسطیٰ کا المیہ: سامراجی سیاست اور عوامی غفلت
مشرق وسطیٰ وہ خطہ ہے، جہاں زمین زرخیز، تاریخ عظیم اور ثقافت متنوع ہے؛ لیکن المیہ یہ ہے کہ یہاں کے لوگ اب تک سامراجی سیاست کے کھیل کا شکار ہیں۔ مغربی طاقتیں اور ان کے ایجنٹ ہر روز ایک نیا بیانیہ، ایک نیا نعرہ اور ایک نیا فریب لے کر آتے ہیں۔ کبھی جمہوریت کے نام پر خون بہایا جاتا ہے، تو کبھی مذہب کے نام پر جنگ مسلط کی جاتی ہے۔ ایران اور شام کے حالات اس کی واضح ترین مثال ہیں۔ایران میں افکارِ عامہ کو ایک خاص سمت میں موڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مغربی میڈیا، ان کی این جی اوز اور ثقافتی یلغار کا ہدف ہے کہ ایران کی نوجوان نسل کو "آزادی” کے نام پر ایک ایسے فریب میں مبتلا کر دیا جائے جہاں "حجاب” کو آزادی کے راستے کی رکاوٹ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر "حجاب” کیوں مغربی طاقتوں کے لیے اتنا بڑا مسئلہ بن جاتا ہے؟ کیا واقعی مغرب کو ایرانی خواتین کی آزادی کی فکر لاحق ہے؟ نہیں۔ اصل مسئلہ ایران کا "دینی حکومت” کا وہ نظام ہے جس نے مغربی سامراج کے مقابلے میں مقاومت کی دیوار کھڑی کر رکھی ہے۔ ایران وہ ملک ہے جہاں مذہب کو فرد کی ذاتی زندگی تک محدود کرنے کے بجائے ریاست کا محور بنایا گیا ہے۔ یہ ماڈل مغرب کے "سیکولر نظام” کے لیے ایک نظریاتی چیلنج ہے۔دوسری جانب شام کی مثال ہے۔ ایک وقت میں شام مشرق وسطیٰ کا سب سے زیادہ سیکولر، ترقی یافتہ اور ثقافتی طور پر متحرک ملک تھا۔ وہاں خواتین کا حجاب لینا یا نہ لینا ذاتی انتخاب تھا۔ مشروبات کے لیے ہوٹل کھلے تھے، سیاحتی مراکز بھرے رہتے تھے اور بین الاقوامی کنسرٹس منعقد ہوتے تھے۔ یہ سب وہ چیزیں ہیں جو آج سعودی عرب میں "بن سلمان” کے اصلاحاتی ایجنڈے کے تحت متعارف کرائی جا رہی ہیں، مگر شام یہ سب برسوں پہلے کر رہا تھا۔
پھر اچانک کیا ہوا؟ وہی مغربی طاقتیں جو ایران میں "سیکولرزم” کو آزادی کا حل بنا کر پیش کرتی ہیں، شام میں "مذہب” کو ہتھیار بنا کر ایک خونریز جنگ مسلط کر دیتی ہیں۔ شام میں سلفی گروہوں کو مالی، عسکری اور ابلاغی امداد دے کر عوام کو بشار الاسد کے خلاف کھڑا کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا بشار الاسد آل سعود یا آل خلیفہ سے زیادہ آمر تھا؟ کیا شام میں عرب دنیا کے دیگر ممالک سے کم آزادی تھی؟ ہرگز نہیں۔شام کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ اسرائیل کے لیے ایک "خطرہ” تھا۔ وہ فلسطینی مزاحمتی گروہوں کی حمایت کرتا تھا، اور اسرائیل کے ناپاک عزائم کے آگے ایک مضبوط رکاوٹ تھا۔ مغرب کو سکولرزم یا مذہب سے کوئی غرض نہیں، ان کا اصل ہدف ہمیشہ وہ ریاستیں رہی ہیں جو اسرائیل کے خلاف کھڑی ہوتی ہیں۔یہاں اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ مغرب اپنے سامراجی مقاصد کے لیے ہر موقع پر مختلف بیانیے تخلیق کرتا ہے۔ ایران میں حجاب کے خلاف مظاہروں کو "آزادی” کا عنوان دیا جاتا ہے، جبکہ شام میں مذہبی انتہا پسندی کو "انقلاب” اور "آزادی” کی جنگ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
کبھی مذہب کو "دہشت گردی” کا چہرہ دیا جاتا ہے، اور کبھی مذہب کو "اصلاح” کے نام پر استعمال کیا جاتا ہے؛ لیکن یہ دونوں راستے آخر میں ایک ہی ہدف کی طرف لے جاتے ہیں: مشرق وسطیٰ کو کمزور کرنا، اس کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنا اور اسرائیل کی بالادستی کو یقینی بنانا۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مشرق وسطیٰ کے عوام بار بار سامراجی طاقتوں کے کھیل کا شکار بنتے رہے ہیں۔ کبھی جمہوریت کے نام پر عراق کو تباہ کر دیا جاتا ہے، تو کبھی انقلاب کے نام پر لیبیا کو خاکستر بنا دیا جاتا ہے۔ افغانستان میں جہاد کو پروان چڑھایا جاتا ہے اور پھر اسی جہاد کو دہشت گردی کا لیبل دے کر پوری مسلم دنیا کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
آج بھی مشرق وسطیٰ کے عوام کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان کے مسائل کا حل "مغرب کی تقلید” یا "مذہبی انتہا پسندی” میں نہیں ہے۔ اصل حل اپنے سیاسی شعور کو بیدار کرنے میں ہے۔ یہ شعور کہ مغربی طاقتیں ہمارے مذہب، ہماری ثقافت اور ہمارے نظامِ حکومت کو محض اپنے مفادات کے لیے نشانہ بناتی ہیں۔مشرق وسطیٰ کے عوام کو اب یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مسئلہ "حجاب” کا نہیں، نہ ہی "سیکولرزم” اور "مذہب” کا ہے۔ اصل مسئلہ وہ سامراجی قوّتیں ہیں جو ہمارے وسائل پر قبضہ کرنا چاہتی ہیں اور اسرائیل کو خطے کا تھانیدار بنانے کے درپے ہیں۔ جب تک ہم اس حقیقت کو نہیں سمجھیں گے، ہم کبھی ایران میں "حجاب” کے مسئلے پر الجھتے رہیں گے اور کبھی شام میں "مذہب” کے نام پر خون بہاتے رہیں گے۔
یہ وقت ہے کہ مشرق وسطیٰ کے عوام متحد ہوں اور اپنی تقدیر کو اپنے ہاتھ میں لیں۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم مغربی سیاست کا کھلونا بن کر رہنا چاہتے ہیں یا اپنی خودمختاری، اپنے وسائل اور اپنی عزت کا دفاع کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وہ شعور ہے جو ہمارے مستقبل کو روشن کر سکتا ہے، ورنہ ہم ہمیشہ ان سازشوں کے ہاتھوں برباد ہوتے رہیں گے۔مغربی طاقتوں نے اپنی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جدید میڈیا اور سوشل نیٹ ورکس کو بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔ آج میڈیا کا ایک بڑا حصہ ان قوّتوں کے کنٹرول میں ہے جو "ثقافتی جنگ” کو آگے بڑھاتے ہیں۔ کبھی "ایران میں حجاب” کو مسئلہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے، تو کبھی "شامی عوام کی آزادی” کا شور مچایا جاتا ہے۔ یہ مصنوعی بیانیے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ترتیب دیے جاتے ہیں تاکہ وہ اصل مسائل سے غافل رہیں۔
مشرق وسطیٰ کے عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ میڈیا کی بنائی ہوئی دنیا حقیقت سے بہت مختلف ہے۔ ہمارے خطے کے لیے "آزادی” اور "جمہوریت” کے مغربی دعوے محض ایک فریب ہیں۔ اصل آزادی وہ ہے جب ہم اپنی شناخت، اپنے وسائل اور اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں، نہ کہ سامراج کے اشاروں پر۔یہ وقت ہے کہ مشرق وسطیٰ کے عوام مذہبی اور فرقہ وارانہ تقسیم سے باہر نکل کر مشترکہ دشمن کو پہچانیں۔ خطے کے تمام مسائل کی جڑ سامراجی سیاست ہے، جو ہمیں تقسیم کر کے اپنے مقاصد حاصل کرتی ہے۔ ایران اور لبنانی مقاومت نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر عوام اور ریاست متحد ہو جائیں، تو بیرونی طاقتیں کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہوں، انہیں شکست دی جا سکتی ہے۔
فلسطین کے محاذ سے لے کر لبنان کے میدان تک، مقاومت کا پیغام یہی ہے کہ اتحاد اور شعور کے ذریعے ہی اپنی تقدیر کو بدلا جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ فرقہ واریت اور داخلی انتشار ہمارے دشمنوں کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ مشرق وسطیٰ کی بقا، عزت اور خودمختاری کا راستہ صرف اسی وقت ہموار ہو سکتا ہے جب ہم سامراجی قوّتوں کے کھیل کو سمجھ کر اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔آخر میں سوال یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے عوام کب اپنی تقدیر کو اپنے ہاتھ میں لیں گے؟ کب تک ہم مغربی سیاست کے اشاروں پر چلتے رہیں گے؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم اپنی دولت، اپنی تاریخ اور اپنے وسائل کو اپنی بہتری کے لیے استعمال کریں؟یہ وقت فیصلہ کُن ہے۔ یا تو ہم سامراجی قوّتوں کے کھیل کا حصہ بن کر برباد ہوتے رہیں گے، یا پھر اپنی وحدت اور شعور سے ایک نئی تاریخ رقم کریں گے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مقاومت ہی وہ واحد راستہ ہے جو ہمیں حقیقی آزادی اور خودمختاری کی طرف لے جا سکتا ہے۔