شام اسرائیل کے لیے خطرہ نہیں بنے گا ” الجوالانی ” سے ملاقات کا احوال

AFP__20241208__36PU6BW__v1__Preview__FilesSyriaConflictJolani.jpg

دو ہفتے قبل جب شامی شہر حلب پر باغی فورسز کے قبضے کے بعد میں لندن سے شام جا رہا تھا تو میں نے سوچا تھا کہ میں ایک طویل جنگ پر رپورٹنگ کر رہا ہوں گا۔ہیئت تحریر شام نامی گروہ تیزی سے آگے بڑھ رہا تھا لیکن میں نے سوچا کہ شامی حکومت اس کے خلاف مزاحمت جاری رکھے گی کیونکہ ماضی میں بھی ایسا ہوا تھا کہ متعدد علاقوں کا کنٹرول کھو دینے کے باوجود بھی بشار الاسد کی انتظامیہ نے سنہ 2015 میں روسی فضائی حملوں کی مدد سے دیہاتوں اور قصبوں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا تھا۔لیکن تقریباً ایک دہائی کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہوئی نظر آئی کہ بشار الاسد کے اتحادی روس، ایران اور لبنانی مسلح گروہوں کی دلچسپی دیگر جنگوں میں زیادہ ہے۔ماضی میں بھی شام کی سرکاری فوج سے اہلکاروں کے انخلا کا سلسلہ جاری رہا تھا لیکن سنہ 2011 میں باغیوں کی دمشق کی طرف پیش قدمی کے باوجود بھی حکومت کو ایسے شہری ڈھونڈنے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی تھی جو کہ بشار الاسد کے لیے لڑنے اور مرنے کے لیے تیار ہوں۔

میں نے جنگ کے محاذوں پر ان افراد سے متعدد ملاقاتیں کی تھیں۔ اس وقت شامی فوج کے زیادہ تر دستوں کی قیادت بشار الاسد کی علوی برادری سے تعلق رکھنے والے افسران کر رہے تھے۔سنہ 2015 میں حلف کے اطراف میں ایک علوی جنرل عرق نامی مشروب گلاسوں میں انڈیل رہے تھے۔ ان کے پاس جو بوتلیں تھیں ان میں کبھی جیک ڈینیئلز نامی شراب بھی ہوا کرتی تھی۔اس جنرل نے انتہائی فخر سے کہا تھا کہ مشرقِ وسطیٰ میں مشہور الکوحل سے تیار کیا گیا یہ مشروب لاذقیہ میں بشار الاسد خاندان کے علاقے میں پہاڑوں پر تیار کیا جاتا ہے۔ اس وقت باہر شامی جنرل کا یونٹ شہر کے باہر باغیوں کے زیرِ کنٹرول علاقے پر حملے کر رہا تھا۔لیکن شامی فوج کے تمام افسران علوی نہیں تھے۔ وسطی دمشق کے ضلع جوبر میں شامی فوج کے ایک مسیحی افسر مجھے ایک سُرنگ میں لے گئے تھے جو کہ انھوں نے باغیوں پر حملے کرنے کے لیے تیار کیے تھے۔انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ کیسے ایسی سُرنگیں باغیوں نے بھی بنائی ہوئی تھیں اور اکثر وہ ان سُرنگوں میں اندھیرے میں ایک دوسرے کو بھی ہلاک کر دیتے تھے۔اس جواں عمر افسر کے ہاتھ پر صلیب بنی ہوئی تھی اور ان کے گلے میں بھی ایک لاکٹ میں صلیب لٹکی ہوئی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ’جہادیوں سے اپنی برداری کا دفاع کر رہے ہیں۔‘

لیکن اس مرتبہ بشار الاسد کی فوج کی لڑنے کی صلاحیت کے حوالے سے میرے اندازے غلط ثابت ہوئے۔سنیچر 7 دسمبر کو میں یہ خبر دیکھ کر سویا کہ باغیوں نے حمص پر قبضہ کر لیا ہے۔ جب میں سو کر اُٹھا تو بشار الاسد روس روانہ ہو چکے تھے اور باغی جنگجو دمشق کی سڑکوں پر جیت کا جشن منا رہے تھے۔انھوں نے ہوائی فائرنگ کے لیے جو گولیاں استعمال کیں ان کی تعداد ان گولیوں سے زیادہ تھیں جو کہ ان کی طرف سے بشار الاسد کے حامیوں کے خلاف استعمال کی گئیں تھیں۔میں نے لبنان کی سرحد پر سینکڑوں گاڑیاں دیکھیں جن میں بشار الاسد کے وفادار افراد اور ان کے ڈرے ہوئے خاندان سوار تھے۔ شامی فوج کے افسران اور اہلکاروں نے اپنے یونیفارم پھینکے اور بغیر گولی چلائے ہی اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔بشار الاسد کی حکومت کرپشن، ظلم اور شامی شہریوں کی زندگی کی پرواہ نہ کرنے کے سبب گری۔ یہاں تک کہ بشار الاسد کی اپنی علوی برادری ان کے لیے لڑنے کے لیے تیار نہیں تھی۔اسی سبب جمعرات کی شام مجھے حمص اور حماہ کی سڑکوں پر گولیوں سے بچنا نہیں پڑا اور میں دمشق میں صدارتی محل میں داخل ہوگیا جہاں مجھے ہیت تحریر شام کے سربراہ احمد الشرع سے ملاقات کرنی تھی۔وہ بہت پہلے عسکری یونیفارم اُتار چکے تھے اور انھوں نے ابو محمد الجولانی کا نام چھوڑ کر اپنا اصل نام اپنا لیا تھا۔

احمد الشرع کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے پُرانے جہادی عقیدے کو چھوڑ کر شامی مذہبی قوم پرست نظریات اپنا چکے ہیں تاہم بہت سارے شامی شہری ان کے اس دعوے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔یہ سچ ہے کہ ماضی میں وہ شام اور عراق میں ایک جہادی جنگجو رہے لیکن انھوں نے سنہ 2016 میں القاعدہ سے راہیں جُدا کرلی تھیں۔بشار الاسد کے محل میں جس احمد الشرع سے میری ملاقات ہوئی وہ ایک دراز قد اور خاموش طبیعت شخص تھے جو کہ اس بات کا اظہار کرنے سے پچکچا رہے تھے کہ وہ شام کو کیسا ملک دیکھنا چاہتے ہیں۔وہ مجھے ایک انتہائی عقلمند اور سیاسی بصارت رکھنے والے شخص نظر آئے۔ دیگر سیاستدانوں کی طرح وہ سیدھے سوالات کے سیدھے جوابات نہیں دیتے۔ انھوں نے کہا کہ وہ شام کو مشرقِ وسطیٰ کا افغانستان نہیں بنانا چاہتے۔ان کے مطابق طالبان ’ایک قبائلی معاشرے کے حکمران ہیں، شام اس سے بہت مختلف ہے‘ اور شام کے نئے حکمران اپنے ملک کی ثقافت اور تاریخ کا احترام کریں گے۔جب میں نے ان سے سوال کیا کہ کیا خواتین کو آزادی ہوگی تو انھوں نے کہا کہ ان کے طاقت کے گڑھ ادلب کی یونیوسٹیوں میں 60 فیصد طالب علم خواتین ہیں۔

تاہم احمد الشرع نے کوشش کی کہ وہ حجاب سے متعلق سوال پر کوئی جواب نہ دیں۔ دمشق میں یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ باریش افراد خواتین کو بال ڈھکنے کے احکامات جاری کر رہے ہیں۔میں نے ان سے پوچھا کہ سوشل میڈیا پر ایک خاتون کی ان کے ساتھ سیلفی لینے کی ویڈیو گردش کر رہی ہے اور اس پر کچھ لوگ اعتراضات بھی اُٹھا رہے ہیں۔ یہ فوٹو لینے کے دوران اس خاتون نے اپنا سر ڈھک لیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ‘میں نے انھیں (سر ڈھکنے پر) مجبور نہیں کیا تھا۔ یہ میری اپنی آزادی کی بات ہے کہ میں کیسے تصویر بنوانا چاہتا ہوں۔ میں نے اس خاتون کو مجبور نہیں کیا تھا، یہ کسی ملک گیر قانون کے نفاذ کی بات نہیں ہے۔لیکن اس ملک کا کلچر ہے کہ یہاں قانون کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔احمد الشرع کا اشارہ ان شامی شہریوں کی جانب تھا جو کہ خود کو ’متقی‘ گردانتے ہیں۔ بہت سی خواتین حجاب پہنتی ہیں اور سیکولر یعنی آزاد خیال شامی شہریوں کا کہنا ہے کہ حجاب پہنا یا نہ پہننا مرضی پر منحصر ہے۔اسد خاندان کے آدھی صدی پر محیط دورِ اقتدار میں شامی شہریوں نے ایسی صلاحیتیں حاصل کر لی ہیں جو کہ انھیں اپنے احساسات چھپا کر محفوظ رہنے کے قابل بناتی ہیں۔

پریشان اور صدمے کا شکار سیکولر شامی شہریوں نے اپنے موبائل فونز پر مجھے یونیورسٹیز کے باہر طالب علموں کی اجتماعی نمازیں پڑھنے کی ویڈیوز بھی دکھائیں۔ان کا کہنا تھا کہ کیا یہ لوگ شروع سے ہی متقی اور پرہیزگار ہیں یا پھر انھیں ایسا کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔تاہم احمد الشرع کا کہنا ہے کہ یہ تمام معاملات نئے آئین کو مرتب کرنے کے دوران قانونی ماہرین کے سامنے رکھے جائیں گے۔تاہم احمد الشرع کے ناقدین کہتے ہیں کہ آئین لکھنے والی کمیٹی کے اراکین کا انتخاب ہیئت تحریر شام کے سربراہ ہی کریں گے اور کمیٹی کے اراکین وہی لکھیں جس کے انھیں احکامات ملیں گے۔لیکن ہماری ملاقات کے دوران احمد الشرع سابقہ حکومت کے ظلم پر بات کرنے میں زیادہ دلچسی لے رہے تھے۔انھوں نے مجھ سے کہا کہ ’جن مسائل کی بات آپ کر رہے ہیں شامی عوام کے مسائل اس سے کہیں زیادہ بڑے ہیں۔ آدھی سے زیادہ آبادی کو یا تو ملک سے باہر نکال دیا گیا ہے یا پھر انھیں ان کے گھروں سے غائب کر دیا گیا ہے۔ان کے خلاف بیرل اور ان گائیڈڈ بم استعمال کیے گئے، ان پر 250 کیمیکل حملے کیے گئے۔ بہت سارے شامی شہری یورپ فرار ہونے کی کوشش کے دوران سمندر میں ڈوب گئے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ شام میں اس وقت تک استحکام نہیں آ سکتا جب تک اس پر عائد پابندیاں نہیں اُٹھا لی جاتیں۔ ان کے مطابق وہ پابندیاں بشار الاسد کی حکومت پر لگائی گئی تھیں اور ان کے مطابق اب ان پابندیوں کو جاری رکھنا ’مظلوموں کو نشانہ بنانے کے مترادف ہوگا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ان کا گروہ دہشتگرد تنظیم نہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں غیرملکی سفارکاروں کے دوروں سے اشارہ ملتا ہے کہ شاید شام پر عائد پابندیاں اُٹھا لی جائیں گی اور ہیئت تحریر شام پر سے دہشتگرد تنظیم کا لیبل بھی ہٹا لیا جائے گا۔میں نے انھیں بتایا کہ غیرملکی سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ شام کی حیثیت کی تبدیلی کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ احمد الشرع اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور سیاسی عمل کے حوالے سے اپنے وعدوں پر قائم رہتے ہیں یا نہیں۔احمد الشرع نے کہا کہ ’میرے لیے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ شام عوام مجھے پر اعتماد رکھتے ہیں۔ ہم نے شامی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ ہم انھیں مجرم حکومت سے نجات دلائیں گے اور ہم نے ایسا ہی کیا۔‘مجھے اس سے زیادہ فرق نہیں پڑتا کہ ملک سے باہر میرے بارے میں کیا کہا جاتا ہے۔

پچھلے دو ہفتوں کے دوران میں نے متعدد شامی شہریوں کو کہتے ہوئے سُنا کہ وہ چاہتے ہیں کہ انھیِں تنہا چھوڑ دیا جائے اور وہ خود اپنے ملک کی دوربارہ تعمیر کریں گے۔ لیکن اس جنگ نے نہ صرف شام کو تباہ کیا بلکہ اس نے ملک کی خودمختاری بھی چھین لی تھی۔

ملک کے شمال مشرقی علاقے میں امریکہ اب بھی موجود ہے اور اپنے کُرد اتحادیوں کے ساتھ مل کر نام نہاد دولت اسلامیہ کی باقیات سے لڑ رہا ہے۔ ملک کا شمال مغربی حصہ ترکی کے کنٹرول میں ہے اور وہاں اس کا حمایت یافتہ مسلح گروہ موجود ہے۔یہاں ایسی نشانیاں موجود ہیں جنھیں دیکھ کر لگتا ہے کہ ترکی شامی کردوں کے خلاف کسی نئے آپریشن کی تیاری کر رہا ہے جن کے ترکی میں موجود کرد علیحدگی پسندوں سے روابط ہیں۔دوسری جانب اسرائیل بھی ماضی کی طرح جارحانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے اور شام میں طاقت کے خلا سے فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ اس کی جانب سے شام پر بمباری کی جا رہی ہے اور شامی سرزمین پر قبضہ کیا جا رہا ہے۔ہمیشہ کی طرح اسرائیل اپنے اقدامات کو اپنے دفاع سے تشبیہہ دے رہا ہے۔اقوامِ متحدہ کے خصوصی نمائندہ برائے شام گیئر پیڈرسن کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے اقدامات ’غیر ذمہ دارانہ‘ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو ایسی کارروائیوں سے گریز کرنا چاہیے جس کے سبب شام میں اقتدار کی منتقلی کا عمل عدم استحکام کا شکار ہوجائے۔

احمد الشرع کو معلوم ہے کہ وہ امریکہ کے حمایت یافتہ اسرائیل کی طاقت کے سامنے نہیں کھڑے ہو سکتے۔ان کا کہنا تھا کہ ’اسرائیل مضبوط ہو یا نہ ہو لکن شام ضرور جنگوں سے تھک چکا ہے۔ شام کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور ہمارے اسرائیل کے حوالے سے کوئی جارحانہ منصوبے نہیں ہیں۔شام اسرائیل سمیت کسی کے لیے بھی کوئی خطرہ نہیں بنے گا۔ان کا کہنا ہے کہ شام ایک ٹوٹا ہوا ملک ہے جس کو بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ ہیئت تحریر شام ملک کا واحد مسلح گروہ نہیں ہے اور یہاں دیگر ایسے گروہ بھی موجود ہیں جو ان کے دشمن ہیں۔یہ امکانات بھی موجود ہیں کہ نام نہاد دولت اسلامیہ کا نیٹ ورک ہیئت تحریر شام کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی کوشش کرے۔شامی شہری بشار الاسد سے منسلک افراد سے انتقام لینا چاہتے ہیں اور اگر ہیئت تحریر شام ایسا کرنے میں ناکام رہتا ہے تو ہو سکتا ہے شامی شہری ان سے خائف ہو جائیں۔ احمد الشرع شام کو مشرقِ وسطیٰ کا دل تصور کرتے ہیں۔شام اپنے جغرافیہ کے سبب دنیا کا ایک اہم اور بہت بااثر ملک ہے۔ دیکھیں یہاں ایک طرف امریکہ ہے اور دوسری طرف روس، یہاں خطے کے ممالک ترکی، ایران اور اسرائیل بھی موجود ہیں۔احمد الشرع کہتے ہیں کہ دنیا کو شام کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔

 

رپورٹ :- جیریمی بوون ( بی بی سی)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے