ایران، گریٹر اسرائیل اور نجم سیٹھی کا مبالغہ آمیز تجزیہ
سینئر صحافی نجم سیٹھی کے حالیہ تجزیے میں گریٹر اسرائیل کے قیام، عرب دنیا کے زوال اور ایران کے مستقبل کے حوالے سے جو پیشگوئیاں کی گئیں، وہ کئی حوالوں سے مبالغہ آرائی اور حقیقت سے کوسوں دور معلوم ہوتی ہیں۔ ان کے خیالات خطے کے موجودہ حقائق، مقاومتی تحریکوں کی طاقت اور اسرائیل کی بڑھتی ہوئی مشکلات کو نظر انداز کرتے ہیں۔نجم سیٹھی کا یہ کہنا کہ گریٹر اسرائیل "بن کر رہے گا”، صیہونی نظریے کے شدت پسند عناصر کی خواہش تو ہو سکتی ہے؛ لیکن اس کی عملی حیثیت نہایت محدود اور تقریباً ناممکن ہے۔ "گریٹر اسرائیل” کا تصور نیل سے فرات تک کے خطے کو اپنے قبضے میں لینا ہے؛ لیکن خطے کی مقاومتی تحریکیں، ایران کی عسکری و تزویراتی حمایت اور فلسطینی عوام کا بے مثال عزم اس خواب کو حقیقت کا روپ نہیں لینے دیتا۔
حزب اللہ کی طاقت، حماس کی استقامت اور فلسطینی عوام کی مسلسل جدوجہد اسرائیل کے توسیعی عزائم کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ شیخ احمد یاسین شہید کا قول آج بھی گونجتا ہے کہ "عرب حکمران تو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں؛ لیکن مقاومتی تحریکیں ان زنجیروں کو توڑنے کا عزم رکھتی ہیں۔نجم سیٹھی نے ایران کو ایک ایسے ملک کے طور پر پیش کیا جو اسرائیل کے لیے ایک آسان ہدف بن سکتا ہے۔ یہ تاثر حقائق کے بالکل برعکس ہے۔ ایران کی فوجی طاقت، مقاومتی تحریکوں کی حمایت اور خطے میں اس کا اثر و رسوخ اسرائیل کے لیے مسلسل چیلنج ہے۔ حزب اللہ، حماس اور خطے کی دیگر مقاومتی تحریکیں ایران کی حمایت سے اپنے وجود کو مضبوط بنا چکی ہیں۔
نجم سیٹھی کا یہ دعویٰ کہ ایران میں "رژیم چینج” کے آثار ہیں، کسی بنیاد کے بغیر ہے۔ ایران نے ہر بحران کے بعد اپنے نظام کو مضبوط کیا ہے، چاہے وہ اقتصادی پابندیاں ہوں یا اندرونی چیلنجز، قیادت کی تبدیلی کے حوالے سے افواہیں محض قیاس آرائی ہیں، کیونکہ ایران کا نظام واضح، منظم اور آئینی بنیادوں پر استوار ہے۔نجم سیٹھی کی جانب سے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای کے اپنے بیٹے کو رہبر بنانے کے حوالے سے کیے گئے دعوے بے بنیاد اور غیر مصدّقہ ہیں۔ ایران کا سیاسی نظام شفافیت اور منظم اصولوں پر مبنی ہے، جہاں رہبر کے انتخاب کا اختیار مجلسِ خبرگان کے پاس ہوتا ہے۔ یہ مجلس، جو ایران کے اعلیٰ ترین ماہرین و مجتہدین پر مشتمل ہے، رہبر کے انتخاب اور ان کی کارکردگی کی نگرانی کی ذمہ دار ہے۔
ایران کے آئینی ڈھانچے میں کسی فرد یا خاندان کو قیادت کے لیے منتخب کرنے کا کوئی خصوصی اختیار حاصل نہیں۔ سید علی خامنہ ای کی قیادت میں ایران کا نظام آئینی اصولوں اور شفافیت کے معیار پر قائم ہے، جہاں ذاتی تعلقات یا خاندانی وابستگیاں فیصلوں پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔نجم سیٹھی جیسے تجزیہ کاروں کو چاہیے کہ وہ ایران کے سیاسی نظام کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے گہرائی سے تحقیق کریں اور غیر تصدیق شدہ دعوے کرنے سے گریز کریں۔ اس طرح کے بیانات نہ صرف حقائق کے منافی ہیں بلکہ ایران کے سیاسی نظام کی ساکھ کو متاثر کرنے کی ناکام کوشش بھی کرتے ہیں، جسے خطے اور دنیا بھر میں عوامی حمایت حاصل ہے۔
نجم سیٹھی نے سعودی عرب، قطر، اور متحدہ عرب امارات کو "قائم رہنے والے” ممالک قرار دیا ہے؛ لیکن خطے کے دیگر ممالک کو مکمل زوال کا شکار سمجھنا غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ اگرچہ عرب حکمرانوں نے اپنی خودمختاری کو عالمی طاقتوں کے آگے گروی رکھا ہوا ہے؛ لیکن عوامی بیداری اور خطے کی مقاومتی تحریکیں اسرائیلی منصوبوں کے راستے میں دیوار بن چکی ہیں۔اسرائیل کی جانب سے شام پر حالیہ سینکڑوں حملے، حزب اللہ کے خلاف جنگی منصوبے اور فلسطین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں سب اسرائیل کی بے چینی اور ناکامی کی علامت ہیں۔ لبنان، یمن، عراق اور فلسطین میں مقاومت کی تحریکوں نے ثابت کر دیا ہے کہ اسرائیل کو خطے میں نہ تو طویل المدتی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے اور نہ ہی وہ اپنے توسیعی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتا ہے۔نجم سیٹھی جیسے تجزیہ نگاروں کو خطے کے حقائق کو گہرائی سے سمجھ کر تجزیے پیش کرنے چاہئیں۔ مبالغہ آرائی یا قیاس آرائی پر مبنی بیانات نہ صرف ان کی ساکھ کو متاثر کرتے ہیں بلکہ خطے کی حقیقی صورتحال کو بھی مسخ کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مقاومت کی تحریکیں نہ صرف اسرائیل کے خوابوں کو چکناچور کر رہی ہیں بلکہ عالمی سیاست میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہی ہیں۔
گریٹر اسرائیل کا تصور ایک خیالی خواب ہے جو خطے کے حقائق سے مطابقت نہیں رکھتا۔ ایران، حزب اللہ، حماس، انصاراللہ، حشد الشعبی اور فلسطینی عوام کی مقاومت نے ثابت کر دیا ہے کہ مظلوموں کے حقوق کی جدوجہد جاری رہے گی۔ خطے کے عوام اور مقاومتی تحریکوں کا اتحاد اسرائیل اور اس کے حامیوں کے لیے ہمیشہ ایک چیلنج رہے گا اور یہ ثابت کر دیا جائے گا کہ "گریٹر اسرائیل” کا خواب کبھی حقیقت نہیں بنے گا۔اسرائیل کے سیاسی اور عسکری ادارے بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ گریٹر اسرائیل کے خواب کو حقیقت کا روپ دینا نہ صرف عملی طور پر دشوار ہے بلکہ یہ خطے کی عوامی بیداری اور مقاومتی تحریکوں کے عزائم کے باعث خود اسرائیل کے وجود کو خطرے میں ڈال چکا ہے۔ صیہونی ریاست کے اندرونی مسائل، سیاسی عدم استحکام، فوجیوں کی خود کُشیاں، مزید لڑنے سے انکار، فوج کا کم پڑنا، نئی بھرتی میں دلچسپی کا فقدان اور فوجی قیادت کے درمیان اختلافات اس کے مستقبل پر سوالیہ نشان کھڑے کر چکے ہیں۔
اسی طرح، خطے کی مقاومتی تحریکیں نہ صرف جنگی میدان میں بلکہ نظریاتی اور سفارتی محاذ پر بھی اسرائیل کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہیں۔ حماس کی مزاحمت، حزب اللہ کے دفاعی اور عسکری اقدامات اور ایران کی قیادت میں مقاومتی بلاک نے اسرائیل کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔علاوہ ازیں، فلسطینی عوام کا بے مثال عزم اور قربانی، دنیا کے دیگر مظلوم قوموں کے لیے مشعل راہ ہے۔ یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مقاومت نے نہ صرف فلسطینی کاز کو زندہ رکھا ہے بلکہ اسرائیل کے توسیعی عزائم کے خلاف ایک مستقل محاذ بھی قائم کر رکھا ہے۔ اس پس منظر میں، نجم سیٹھی جیسے تجزیہ کاروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ محض مفروضوں پر مبنی تجزیے دینے کے بجائے، ان حقائق کو مدّنظر رکھیں جو نہ صرف زمینی صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ خطے کے مستقبل کی سمت بھی متعیّن کرتے ہیں۔
نجم سیٹھی کا تجزیہ کہ گریٹر اسرائیل بن کر رہے گا، خطے کی سیاسی، عسکری اور مزاحمتی حقیقتوں سے نابلد معلوم ہوتا ہے۔ شیخ نعیم قاسم کے حالیہ خطاب نے واضح کر دیا ہے کہ حزب اللہ نے نہ صرف اسرائیل کے جارحانہ عزائم کو ناکام بنایا بلکہ اپنے مقاومتی فلسفے کے ذریعے صیہونی ریاست کو نفسیاتی، عسکری اور اقتصادی محاذوں پر شکست سے دوچار کیا ہے۔حزب اللہ کی استقامت نے 200,000 سے زائد صیہونی شہریوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا، اسرائیل کی دفاعی صلاحیت کو چیلنج کیا اور صیہونی معیشت کو گہرے نقصان سے دوچار کیا۔ ان کامیابیوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ مزاحمت کے نظریے پر مبنی جدوجہد نہ صرف ممکن ہے بلکہ اسرائیل کے توسیعی عزائم کو خاک میں ملانے کا مؤثر ذریعہ بھی ہے۔
نجم سیٹھی جیسے تجزیہ کاروں کو یہ حقیقت سمجھنی چاہیے کہ خطے کی مقاومتی تحریکیں، بشمول حزب اللہ، نہ صرف زندہ ہیں بلکہ اسرائیل کے خلاف ناقابل تسخیر دیوار بن چکی ہیں۔ حزب اللہ کی مزاحمت، شہداء کی قربانیوں اور عوامی حمایت پر مبنی ہے، جس نے ثابت کر دیا ہے کہ عزت اور آزادی کا حصول ممکن ہے۔ گریٹر اسرائیل کا خواب ایک فریب سے زیادہ کچھ نہیں اور حزب اللہ کی کامیابیاں اس کا زندہ ثبوت ہیں۔مزاحمت کا راستہ جاری رہے گا اور ظلم کے خلاف جدوجہد کبھی بھی شکست سے دوچار نہیں ہوگی۔
قصہ مختصر، مقاومت کو سمجھنے کے لیے اسرائیلی چینل 12 کی یہ خبر ایک واضح مثال پیش کرتی ہے، ایک اسرائیلی فوجی افسر کے مطابق، "اگر اسرائیل 20 سال بھی غزہ میں رہے، تب بھی وہ حماس کے آخری راکٹ تک نہیں پہنچ سکے گا۔” یہ بیان واضح کرتا ہے کہ مقاومت محض جنگی حکمت عملی نہیں، بلکہ ایک ایسی ناقابل تسخیر عزم و حوصلے کی علامت ہے جو اپنے مقصد کے لیے ہر صورت میں قائم رہتی ہے۔ یہ اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ غزہ جیسے چھوٹے علاقے کی مزاحمت اسرائیل کی جدید فوجی طاقت کو مسلسل چیلنج کر رہی ہے۔ یہی مقاومت ہے جو اپنے ایمان اور استقلال کے بل بوتے پر بڑے سے بڑے دشمن کو بے بس کر دیتی ہے۔