اسرائيل پر ’نسل کشی کے اقدامات‘ کے الزامات
نيو يارک ميں قائم ‘ہيومن رائٹس واچ‘ نے فلسطينی علاقوں ميں پانی کی فراہمی پر ايک رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ ميں اسرائيل پر الزام عائد کيا گيا کہ اس نے ”جان بوجھ کر اور ايک منظم انداز سے فلسطينيوں کو پانی کی ترسيل روکی، جس کی وجہ سے ہزاروں افراد کی موت واقع ہوئی اور آنے والے وقت ميں بھی مزید اموات ہوں گی۔رپورٹ ميں مزيد کہا گيا ہے کہ فلسطينی علاقوں ميں پانی کی فراہمی کے بنيادی ڈھانچے کو ‘دانستہ طور پر‘ تباہ کيا گيا اور جنريٹرز کے ليے ايندھن کو بھی روکا گيا۔ رپورٹ ميں يہ نتيجہ اخذ کيا گيا، ”اسرائيلی حکام نے فلسطينی آبادی کی جزوی يا مکمل تباہی کے ليے ایسے حالات پيدا کيے۔‘‘ ہيومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق يہ ‘نسل کشی کے اقدامات‘ کے مساوی ہے۔
اسرائيلی ترديد
اسرائيلی وزارت خارجہ نے اس رپورٹ پر اپنے رد عمل ميں کہا، ”ہيومن رائٹس واچ ايک مرتبہ پھر اسرائيل مخالف پراپيگنڈا پھيلا رہی ہے۔‘‘ اسرائيلی حکومت کا کہنا ہے کہ جنگ کے آغاز ہی سے حماس کے حملوں کے باوجود غزہ ميں پانی اور امداد کی فراہمی کو يقنی بنايا گيا ہے۔اسرائيلی وزارت دفاع کے ماتحت کام کرنے والے فلسطينی شہری امور کے نگران ادارے COGAT نے پانی کو ہتھيار کے طور پر استعمال کرنے کی ترديد کی۔ اس کی جانب سے مطلع کيا گيا کہ بين الاقوامی قوانين کے تحت مسلح تنازعات کی زد ميں فی انسان يوميہ پندرہ ليٹر پانی درکار ہوتا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اسرائيل سے غزہ کے ليے پانی کی تين پائپ لائنيں فعال ہيں، جن سے اوسطاً شمالی غزہ ميں 107 ليٹر فی شخص، وسطی غزہ ميں 34 ليٹر فی کس اور جنوبی غزہ ميں 20 ليٹر فی باشندہ پانی فراہم کيا جا رہا ہے۔
دريں اثناء فرانسيسی امدادی ادارے ‘ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ نے بھی جمعرات کو جاری کردہ ايک مختلف رپورٹ ميں اسرائيل پر الزام عائد کيا کہ غزہ کی تباہی، بالخصوص شمالی غزہ ميں ‘نسل کشی کے آثار‘ دکھائی ديتے ہيں۔ ايم ايس ايف کے سيکرٹری جنرل کرسٹوفر لاک ايئر کے بقول ان کی طبی ٹيموں نے جو کچھ غزہ ميں ديکھا، وہ قانونی ماہرين اور ديگر اداروں کی جانب سے کی گئی نسل کشی کی تشريح سے مطابقت رکھتا ہے۔ لاک ايئر نے مزيد کہا، ”نسل کشی کے آثار اور تباہی، بشمول بڑے پيمانے پر قتل عام، سنگين جسمانی و ذہنی زخم، جبری گمشدگياں اور بمباری اور زیر حراست فلسطينيوں کے ناقابل بيان رہائشی حالات کو جھٹلايا نہيں جا سکتا۔فوری طور پر ‘ڈاکٹرز ودآؤٹ بارڈرز‘ کی اس رپورٹ پر اسرائيلی رد عمل سامنے نہيں آیا۔