شام پر اسرائیلی حملوں کے باوجود ’نئے محاذ نہیں کھول سکتے‘، الجولانی
شام کے ڈی فیکٹو لیڈر احمد الشعرا (ابو محمد الجولانی) نے کہا ہے کہ اسرائیل شام پر اپنے حملوں کا جواز پیش کرنے کے لیے جھوٹے بہانے کر رہا ہے لیکن وہ نئے تنازعات میں اُلجھنے میں دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ ملک بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد تعمیرِنو پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔ابو محمد الجولانی حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) گروپ کی قیادت کرتے ہیں جس نے گذشتہ ہفتے بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹا کر خاندان کی پانچ دہائیوں پر محیط حکومت کا خاتمہ کیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بشار الاسد کی حکومت ختم ہونے کے بعد اسرائیل شام کے اندر ایک غیر فوجی زون میں چلا گیا ہے جسے 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد بنایا گیا تھا، بشمول سٹریٹجک پہاڑ ہرمون کا شامی حصہ، جہاں اس نے ایک شامی فوجی چوکی پر قبضہ کر لیا۔اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ وہاں رکنے کا ارادہ نہیں رکھتا اور شام کی سرزمین میں دراندازی کو سرحدی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ایک محدود اور عارضی اقدام قرار دیتا ہے۔ اس نے شام کے سٹریٹجک ہتھیاروں کے ذخیرے پر بھی سینکڑوں حملے کیے ہیں۔
سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اردن سمیت کئی عرب ممالک نے اسرائیل کی جانب سے گولان کی پہاڑیوں کے ساتھ بفر زون پر قبضے کی مذمت کی ہے۔ابو محمد الجولانی نے حزب اختلاف کے ایک حامی چینل شام ٹی وی کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’اسرائیلی دلائل کمزور ہو چکے ہیں اور اب ان کی حالیہ خلاف ورزیوں کا جواز نہیں بنتا۔ اسرائیلیوں نے واضح طور پر شام میں حدود کو عبور کیا ہے، جس سے خطے میں غیر ضروری طور پر کشیدگی بڑھنے کا خطرہ ہے۔برسوں کے تنازعات اور جنگ کے بعد شام کی جنگ زدہ حالت نئے تصادم کی اجازت نہیں دیتی۔ اس مرحلے پر ترجیح تعمیر نو اور استحکام ہے، ایسے تنازعات میں نہ الجھیں جو مزید تباہی کا باعث بنیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے کا واحد راستہ سفارتی حل ہے اور یہ کہ ’فوجی مہم جوئی‘ نہیں چاہتے۔روس کی فوجی مداخلت نے تقریباً ایک دہائی قبل بشار الاسد کے حق میں توازن قائم کرنے میں مدد کی تھی اور اس نے اس ہفتے کے شروع میں معزول رہنما کو پناہ دی تھی، اس کے بارے میں ابو محمد الجولانی نے کہا کہ شام کے ساتھ اس کے تعلقات کو مشترکہ مفادات کے لیے ہونا چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ ’موجودہ مرحلے میں بین الاقوامی تعلقات کو محتاط طریقے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔