بیروت میں جشن، تل ابیب میں جنگ

4c6j7b13f85f8c2k54i_440C247.jpg

بیروت میں جشن، تل ابیب میں جنگ

ہنری کسنجر نے ایک بار کہا تھا: "روایتی فوج اگر جیتے نہیں تو شکست خوردہ ہے اور اگر ایک مسلح گروہ شکست نہ کھائے تو وہ فاتح ہے۔” یہ جملہ ان دنوں لبنان میں صہیونیوں کی صورت حال کی بہترین وضاحت کرتا ہے۔ گزشتہ روز جنگ بندی کے معاہدے کے بعد جس وقت جنوبی لبنان کے باشندے فاتحانہ انداز میں اپنے گھروں کو جا رہے تھے اور اسلامی مزاحمت کی حمایت میں نعرے لگا رہے تھے، معلوم ہوا کہ صیہونی آبادکار اپنے گھروں کو واپس جانے کی کوئی خواہش نہیں رکھتے اور بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ پر شدید تنقید کے ساتھ ساتھ "شکست” کا اعتراف کر رہے تھے۔ بدھ کی صبح لبنان کی فضا میں سکون آ جانے کی خبر اور جنوب میں پناہ گزینوں کی واپسی کی لہر کا آغاز، عالمی میڈیا میں شہ سرخی بن چکی تھیں۔ اگرچہ محکمہ شہری دفاع نے لوگوں کی حفاظت کے لیے کئی ہدایات جاری کیں، اور جزوی طور پر، نہ پھٹنے والے بموں یا فوجی ساز و سامان کی موجودگی سے خبردار کیا، لیکن اس وارننگ نے جنوب کے باشندوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے سے نہیں روکا۔ میڈیا کی تصاویر میں لبنان کے جنوب میں بھاری ٹریفک کو دکھایا گیا اور لوگوں نے مٹھائیاں اور چاکلیٹ تقسیم کیں۔ العربیہ کے رپورٹر نے خاص طور پر بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقوں کے داخلی راستوں پر بھاری ٹریفک کی اطلاع دی۔ اس علاقے کے مکینوں نے حزب اللہ کے جھنڈے اور سید حسن نصر اللہ اور سید ہاشم صفی الدین سمیت اسلامی مزاحمت کے شہداء کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں۔

 

المیادین چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے لوگوں نے کہا: "ہم یہ فتح اپنے نواسوں کو وراثت میں دیں گے۔” لبنانی شہریوں نے یہ بھی کہا: "ہم شہید سید حسن نصر اللہ سے کہتے ہیں کہ اگر آپ نہ ہوتے تو ہم جیت نہ پاتے اور ہم یہ راہ اسی طرح جاری رکھیں گے اور حتمی فتح یقینی ہے۔” اس صورت حال کی وضاحت کرتے ہوئے، بی بی سی کی ایک رپورٹر نفیسہ کوہنورد نے کہا کہ اس نے متعدد لبنانیوں سے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کا گھر ابھی تک محفوظ ہے تو انہوں نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم بہرحال واپس آجائیں گے۔ بی بی سی رپورٹر نے مزید کہا: ” حزب اللہ کے حامی اور جن سے ہم نے بات کی ہے، وہ یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ یہ جنگ بندی ان کی ‘فتح’ ہے۔” بیروت اور جنوبی راستے میں جو احساس ہم نے دیکھا وہ، کم از کم حزب اللہ کے حامیوں میں، فتح کا احساس ہے۔ ایسے وقت جب لوگ اپنے گھروں کو لوٹنے پر خوش ہیں، لبنان کی وزارت ٹرانسپورٹ نے بھی اعلان کیا ہے کہ اس نے تباہ شدہ پلوں اور سرحدی گزرگاہوں کی دوبارہ تعمیر کا عمل شروع کر دیا ہے۔ لبنانی فوج نے بھی جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد کے آغاز کے ساتھ ہی اقوام متحدہ کی ہنگامی فورسز (UNIFEL) کے ساتھ مل کر حکومت کے حکم کے مطابق ملک کے جنوب میں تعیناتی کے لیے اپنی تیاری پر زور دیا۔

 

میدان جنگ کی دوسری طرف صہیونیوں کا ردعمل لبنانیوں جیسا نہیں تھا۔ صیہونی اخبار یدیعوت آحارنوت نے مقبوضہ علاقوں کے شمال میں حزب اللہ کے حملوں کے اثرات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ 9 ہزار عمارتیں اور 7 ہزار گاڑیاں مکمل تباہ ہو چکی ہیں۔ صیہونی ٹی وی چینل 12 نے خبر دی ہے کہ لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ جنگ ​​میں اب تک 79 فوجیوں سمیت 124 اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔ صہیونی آرمی ریڈیو نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ حزب اللہ کے میزائل اور ڈرون حملوں کے نتیجے میں مقبوضہ علاقوں میں 22,715 مرتبہ وارننگ سائرن بجے۔ ان تمام خبروں کے علاوہ صیہونی حکومت کی کابینہ کو 140 ملین شیکل (38.4 ملین ڈالر) معاوضہ ادا کرنے پر مجبور کیا گیا، جو ممکنہ طور پر مسلسل انخلاء کی وجہ سے بڑھ جائے گا۔ یہ صیہونی حکومت کی سیکورٹی کابینہ کی طرف سے حزب اللہ کے ساتھ جنگ ​​بندی کے معاہدے پر رضامندی کے بعد آنے والے آفٹر شاکس کا حصہ ہیں، جس پر کل سے عملدرآمد شروع ہوا ہے۔ دوسرے الفاظ میں "حزب اللہ کی فوجی شکست اور مقبوضہ شمالی فلسطین کے مکینوں کی بحفاظت واپسی کی ضمانت” صہیونیوں کی خواہش تھی اور اب جبکہ ان کے مطالبات پورے نہیں ہوئے، وہ جو کچھ ہوا ہے اس سے ناخوش ہیں۔

 

ایک سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ مقبوضہ علاقوں کے 99 فیصد باشندوں کا خیال ہے کہ اسرائیل نے حزب اللہ کے خلاف جنگ نہیں جیتی ہے۔ جنگ بندی کے نفاذ سے لبنانی عوام کے برعکس، مقبوضہ علاقوں کے شمال میں رہنے والے اپنی بستیوں میں واپس آنے سے خوفزدہ ہیں۔ کریات شمونا قصبے کے میئر امیخائی سٹرن نے کہا کہ شمالی آباد کار علاقے میں واپس نہیں جانا چاہتے۔ اس نے کہا: "میئر ہونے کے باوجود، میں اپنے بچوں کی پرورش کریات شمونا میں کرنا محفوظ محسوس نہیں کرتا۔” میرم حجل کی علاقائی کونسل کے سربراہ امیت سوفر کا بھی خیال ہے کہ جنگ بندی کا معاہدہ امن قائم کرتا ہے، سلامتی نہیں۔ اس نے کہا: "کوئی بھی ایسی جگہ نہیں رہنا چاہتا جہاں سیکیورٹی نہ ہو۔” المطلہ کی تصفیہ کونسل کے سربراہ ڈیوڈ ازولائی نے بھی طے پانے والے معاہدے کو شرمناک قرار دیا ہے، جس کے نتیجے میں شمالی آباد کاروں کو ان کے اپنے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ صیہونی رژیم کی ملٹری انٹیلی جنس (امان) کے سابق سربراہ تیمر ہیمن نے اس سلسلے میں کہا: "لبنان میں اسرائیلی فوج اپنے کسی بھی ہدف کو حاصل نہیں کرسکی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صیہونی آبادکاروں کی جلد اور محفوظ واپسی ممکن نہیں ہے۔” اس نے اعتراف کرتے ہوئے کہا: "اسرائیلی فوج کے ساتھ دلیرانہ جنگ میں حزب اللہ کے سپاہیوں نے ثابت کر دی ہے کہ صرف میدان جنگ میں اپن بات منوائی جا سکتی ہے۔” اس نے کہا: "ایک سال کی جنگ کے بعد، اسرائیل کو گولہ بارود کے گوداموں میں کمی، ریزرو فوجیوں کی صلاحیت کا مسئلہ اور اہداف کے حصول میں دشواری کا سامنا ہے۔”

 

About Author

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے